جہاد و قتال - جاوید احمد غامدی

جہاد و قتال

 

جہاد کے معنی کسی جدوجہد میں پوری قوت صرف کر دینے کے ہیں۔ قرآن میں یہ تعبیر جس طرح اللہ کی راہ میں عام جدوجہد کے لیے آئی ہے، اِسی طرح قتال فی سبیل اللہ یا اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے بھی آئی ہے۔ اِس کی دو صورتیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں:
ایک کفر کے خلاف جنگ،
دوسرے ظلم و عدوان کے خلاف جنگ۔
پہلی صورت کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم سے اور اُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے۔ اِس قانون کے تحت آپ نے اور آپ کے صحابہ نے کفر کے خلاف جو جنگیں لڑی ہیں، وہ محض جنگیں نہ تھیں، بلکہ خدا کا عذاب تھا جو سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلۂ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہودونصاریٰ پر اور اِس کے بعد جزیرہ نماے عرب سے باہر کی بعض قوموں پر نازل کیا گیا۔ آپ پر نبوت ختم کر دی گئی ہے۔ چنانچہ لوگوں کی تکفیر اور اُن کے خلاف محض اُن کے کفر کی وجہ سے جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین کو قتل کرنے یا اُن پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی آپ اور آپ کے صحابہ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔
دوسری صورت، البتہ شریعت کا حکم ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے جہادوقتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اسلامی شریعت میں جہاد اِسی مقصد سے کیا جاتا ہے۔ یہ نہ خواہش نفس کے لیے ہے، نہ مال و دولت کے لیے، نہ ملک کی تسخیر اور زمین کی حکومت کے لیے، نہ شہرت و ناموری کے لیے اور نہ حمیت و حمایت اور عصبیت یا عداوت کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے۔ انسان کی خودغرضی اور نفسانیت کا اِس جہاد و قتال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اللہ کی جنگ ہے جو اُس کے بندے، اُس کے حکم پر اور اُس کی ہدایت کے مطابق اُس کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اُن کی حیثیت اِس جنگ میں محض آلات و جوارح کی ہے۔ اِس میں اُنھیں اپنا کوئی مقصد نہیں، بلکہ خدا کے مقاصد پورے کرنا ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی اِس حیثیت سے سرمو کوئی انحراف نہیں کر سکتے۔
اِس کا جو قانون قرآن میں بیان ہوا ہے، اُس کی اہم دفعات یہ ہیں:
۱۔ جہاد و قتال کا حکم مسلمانوں کو بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ اِس کی جو آیتیں بھی قرآن میں آئی ہیں، مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں اُن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ حدود و تعزیرات کی طرح اِن آیات کے مخاطب وہ بحیثیت جماعت ہیں۔ لہٰذا اِس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی اُن کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ اُن کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ اُن کی طرف سے اِس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔
۲۔ قرآن میں اِس کا حکم اصلاً فتنہ کے استیصال کے لیے آیا ہے۔ اِس کے معنی کسی شخص کو ظلم و جبر کے ساتھ اُس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں ’persecution‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جان و مال اور عقل و راے کے خلاف زیادتی کی دوسری تمام صورتیں اِسی کے تحت ہیں۔ چنانچہ ظلم و عدوان جس صورت میں بھی ہو، یہ اُس کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ جہاد مسلمانوں پر اُس وقت تک فرض نہیں ہوتا، جب تک دشمن کے مقابلے میں اُن کی حربی قوت ایک خاص حد تک نہ پہنچ جائے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جہاد و قتال کی اِس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے اخلاقی وجود کو محکم رکھنے کی کوشش کریں، بلکہ اپنی حربی قوت بھی اُس درجے تک لازماً بڑھائیں جس کا حکم قرآن نے زمانۂ رسالت کے مسلمانوں کو اُس وقت کی صورت حال کے لحاظ سے دیا تھا اور اُن کے اور اُن کے دشمنوں کے درمیان اِس کے لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی تھی۔
۴۔ جہاد میں عملاً حصہ نہ لینا صرف اُس صورت میں جرم ہے، جب کوئی مسلمان نفیر عام کے باوجود گھر میں بیٹھا رہے۔ اُس وقت یہ بے شک، نفاق جیسا بڑا جرم بن جاتا ہے۔ یہ صورت نہ ہو تو جہاد ایک فضیلت ہے جس کے حصول کا جذبہ ہر شخص میں ہونا چاہیے۔ لیکن اِس کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت ہی کی ہے، یہ اُن فرائض میں سے نہیں ہے جنھیں پورا نہ کیا جائے تو آدمی مجرم قرار پائے۔
۵۔ جہاد اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ و جدال کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اِن سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی۔ اِس حکم کے ذیل میں جو سب سے اہم ہدایت قرآن میں بیان ہوئی ہے، وہ عہد کی پابندی کی ہے۔ عذر اور نقض عہد کو اللہ تعالیٰ نے بدترین گناہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ کوئی معاہد قوم اگر مسلمانوں پر ظلم بھی کر رہی ہو تو معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اُن کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ اِسی طرح جو لوگ جنگ کے لیے نہ نکلیں یا جنگ کے موقع پر کسی وجہ سے غیرجانب دار رہنا چاہتے ہوں، اُن کے خلاف بھی کسی اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ یہ صرف مقاتلین (combatants) کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2009
مصنف : جاوید احمد غامدی