جناب زاہد الراشدی کے جواب میں - ڈاکٹر محمد فاروق خان

جناب زاہد الراشدی کے جواب میں

 راقم الحروف مولانا زاہد الراشدی کے جواب الجواب کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بحث مولانا زاہدالراشدی نے روزنامہ ’’اوصاف‘‘ میں غامدی صاحب کے نقطۂ نظر پر تنقید کر کے شروع کی تھی۔ جب اس تنقید کا جواب دیا گیا تو ’’اوصاف‘‘ نے اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ جب مولانا نے اپنے تین تاریخی نکات کا تذکرہ بعد کے مضامین میں بھی کیا تو راقم نے اس ضمن میں ایک تحریر لکھ کر نمائندہ ’’اوصاف‘‘ کے حوالے کی۔ جب اوصاف کی طرف سے اس کی اشاعت سے معذرت کی گئی، تب راقم نے وہ تحریر ’’اشراق‘‘ کو بھجوائی۔ جب اس تحریر پر مولانا کا جواب شائع ہوا تو راقم نے سوچا کہ ایک ایسی بحث کو طول دینے کا فائدہ ہی کیا جو ایک اخبار کے صفحات پر محض یک طرفہ جاری ہے۔ افسوس کہ مولانا زاہد الراشدی اس اخبار کو، جس کے وہ مرکزی کالم نگار ہیں، بنیادی اخلاقیات کا یہ نکتہ ابھی تک نہیں سمجھا سکے کہ جب وہ کسی پر تنقید کرے تو یہ اس کا فرض بن جاتا ہے کہ اگر اس تنقید کا جواب اسے بھیجا جائے تو وہ اس جواب کو شائع کرے۔
بہرحال جب یہ معلوم ہوا کہ مولانا نے تمام مضامین اپنے رسالے ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کر دیے ہیں تو دل کو ڈھارس بندھی کہ جس رویے کی توقع ہم ان جیسے ذی علم انسان سے رکھتے تھے، وہ کم از کم ان کے ذاتی رسالے کی حد تک جاری ہے۔ اس کے لیے راقم مولانا کا شکر گزار ہے اور توقع ہے کہ آیندہ بھی ان کا یہی علمی رویہ جاری رہے گا۔
مولانا راشدی کا اصل نقطۂ نظر خود ان کے الفاظ میں یہ ہے کہ :’’اگر کسی مسلم علاقہ پر کافروں کا تسلط قائم ہو جائے اور اسلامی ریاست کا وجود ہی ختم ہو جائے تو علماے کرام اور دینی قیادت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کافرانہ تسلط کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے مزاحمت کریں۔‘‘ اس ضمن میں انھوں نے امام ابنِ تیمیہ کی مثال دی۔ اس مثال پر بحث کر کے ہم نے یہ ثابت کیا کہ ان کے دور میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور جو کچھ ہوا اس میں امام صاحب کا طرزِ عمل یہ تھا کہ انھوں نے عارضی فاتح افواج سے بھی افہام و تفہیم کا رشتہ استوار کیا۔ یعنی جب تاتاری مسلمانوں نے دمشق کے اردگرد قبضہ کر لیا تو وہ خود ایک وفد لے کر تاتاری حکمران کے پاس گئے اور اس سے دمشق کے باشندوں کے لیے پروانۂ امن حاصل کیا۔ اور بعد میں جب دمشق اور اردگرد پر سلطانِ مصر کا قبضہ پوری طرح مستحکم ہوگیا اور ایک دفعہ پھر تاتاریوں کی آمد کی افواہیں گردش کرنے لگیں تو انھوں نے ڈٹ کر سلطانِ مصر کا ساتھ دیا، اسی طرح جس طرح کسی بھی وفادار شہری کو اپنی ریاست کا ساتھ دینا چاہیے۔ امام صاحب کی اس پوری سرگزشت میں ’’مسلم علاقہ پر کافروں کا تسلط‘‘ ، ’’اسلامی ریاست کے وجود کا اختتام‘‘ اور ’’کافرانہ تسلط کے خلاف جہاد کا اعلان ‘‘ کہاں سے آ گیا؟ اس پر مولانا زاہد الراشدی ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ شاید مولانا کی نظر سے یہ بات پوشیدہ رہ گئی کہ تاتاری بھی مسلمان تھے اور امام ابنِ تیمیہ بنفسِ نفیس قازان کے دربار میں اہلِ دمشق کے لیے امان مانگنے گئے تھے۔
اس کے بعد مولانا نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی مثال دی۔ چنانچہ الجزائر کے متعلق ہم نے عرض کیا کہ وہاں ایک بہت بڑا علاقہ شروع ہی سے خودمختار اور فرانسیسی اثر سے آزاد تھا۔ آزادی کی تحریک FLW نے شروع کی۔ اور 1958ء میں قاہرہ میں آزاد الجزائری حکومت قائم ہوئی۔ اسی آزاد جلاوطن حکومت، جس کے سربراہ فرحت عباس تھے، کی سرکردگی میں جنگِ آزادی شروع ہوئی اور بالآخر 1962ء میں الجزائر مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔ ۱؂ مولانا راشدی نے اعتراض کیا ہے کہ ہم نے اس جدوجہدِ آزادی میں جناب بن بادیس اور جناب شیخ ابراہیمی کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ الجزائر کی جنگِ آزادی میں تمام عناصر نے حصہ لیا تھا، جس میں علما بھی شامل تھے، بلکہ ایسے ہی جیسے تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے حصہ لیا تھا۔ تاہم جس طرح یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قیامِ پاکستان مولانا شبیر احمد عثمانی کے فتوے کا مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ الجزائر کی جنگِ آزادی شیخ بن بادیس کے فتوے سے شروع ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قومی تحریک شروع ہوتی ہے تو معاشرے کا ایک حصہ ہونے کی وجہ سے علما بھی اس میں ایک قابلِ قدر کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن مولانا راشدی جس مقدمے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ مجمل بات کہنے کے بجائے وہ یہ بتائیں کہ فلاں تاریخ کو شیخ بن بادیس نے فلاں فتویٰ دیا اور اس کے بعد فلاں تاریخ کو پہلا مسلح اقدام ہوا۔
اس کے بعد مولانا راشدی نے افغانستان کی مثال پیش کی۔ اس مثال پر بحث کر کے ہم نے عرض کیا کہ یہ تو افتراق و انتشار سے بھری ہوئی ایک داستان ہے جس میں ہر عالمِ دین نے اپنے اپنے دھڑے کو مضبوط بنانے اور دوسروں کو کمزور کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مسلح کارروائی کسی کے فتوے سے نہیں ، بلکہ پاکستان کے اربابِ اقتدار کی سیاسی ترجیحات سے شروع ہوئی ۔ اس ضمن میں ہم نے اشارے ہی پر اکتفا کیا اور یہ سمجھا کہ شاید مولانا کے لیے یہ اشارہ ہی کافی ہو گا، لیکن اب ہمیں مجبوراً ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ہوگا کہ براہِ کرم اس موضوع پر کچھ مزید مطالعہ فرما لیجیے، اور کچھ نہیں تو بریگیڈئیر یوسف کی کتاب ’The Bean Trap ‘ہی پڑھ لیجیے۔ جنرل نصیر اللہ خان بابر کے انٹرویو دیکھ لیجیے۔ ’’اوصاف‘‘ میں جناب گل بدین حکمت یار کا جو انٹرویو شائع ہوا ہے، اسے ہی دیکھ لیجیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے ہی سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔ روسی فوج کے آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اس کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ آئی ایس آئی نے کیا۔ امریکی ہر معاملہ میں شریکِ مشورہ رہے۔ نوے فی صد رقم اور سکڈ میزائل جیسا جدید اسلحہ امریکہ نے فراہم کیا۔ اس بہتی گنگا سے سب نے خوب خوب ہاتھ دھوئے۔ افغانیوں کے اندر اور نتیجۃً ان کے علما کے اندر سارا افتراق و انتشار بھی انھی مقتدر اداروں نے پیدا کیا۔ اور ہر ایک کو خوب خوب استعمال کیا۔ اب اس سارے معاملے کے متعلق مولانا زاہد الراشدی اگر یہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں کہ ایک عالمِ دین نے فتویٰ دیا جس پر بھٹو صاحب نے اقدام کیا۔ پھر ایک اور عالمِ دین نے فتویٰ دیا، اور چونکہ جنرل ضیاء الحق ہر کام ’’فتویٰ‘‘ کے مطابق ہی کرنے کے عادی تھے، اس لیے انھوں نے فوری طور پر عالمِ اسلام کے عظیم دوست امریکہ کی مدد سے اس پر عمل درآمد شروع کیا تو اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

 اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

ہم بصد ادب و احترام مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شاید سیاسی قوتوں اور مقتدر اداروں کے ظالمانہ اور بے حس رویوں سے بے خبر ہیں۔ کشمیر کے متعلق بھی ہمارا یہ تجزیہ نوٹ فرما لیں کہ جس دن ان قوتوں کے درمیان اپنے مفادات کے تحت کوئی سمجھوتا ہوگیا، اس دن وہ کسی بھی فتویٰ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کر گزریں گی ۔

________

۱؂ الجزائر کے متعلق جامع معلومات کے لیے دائرۂ معارفِ اسلامیہ جلد ۳ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

____________

 

 تاریخ: جولائی 2001ء
 

مصنف : ڈاکٹر محمد فاروق خان
Uploaded on : Jan 13, 2016
2944 View