ماخذ دین کی بحث: جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو - سید منظور الحسن

ماخذ دین کی بحث: جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو

 [یہ سوال و جواب استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ میری ایک گفتگو سے ماخوذ ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں امام شافعی کی کتاب ’’الرسالہ‘‘کی تدریس کے دوران میں ایک مبتدی طالب علم کے اشکالات کو رفع کرنے کے لیے استاذ گرامی نے جوگفتگو فرمائی، اسے میں نے اپنے فہم کے لحاظ سے مرتب کیا ہے۔امید ہے کہ ماخذ دین کی بحث میں دل چسپی رکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ افادیت کا باعث ہوگی۔]

 

     سوال: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں ’فجِماعُ ما أَبانَ اللّٰہُ لِخلقہِ في کتابہ‘ (اللہ نے اپنی کتاب میں جو کچھ مخلوق کے لیے مجموعی طور پر بیان کیا) کے زیر عنوان جو بحث کی ہے، اس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ امام صاحب ان احکام کو جو اصلاً قرآن مجید میں مذکور نہیں ہیں اور جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا ہے، قرآن مجید ہی پر مبنی قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے ’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘ ۱؂ اور ’یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘ ۲؂ کے نصوص کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس سے کیا یہ بات اخذ کرنا درست ہے کہ امام صاحب بہ اعتبار ترتیب قرآن مجید کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم مان رہے ہیں؟اگر یہ درست ہے تو اس پر کیا یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ انھوں نے ایک خلاف واقعہ بات کو بنیاد بنایا ہے؟ مزید برآں، اس کے نتیجے میں کیا یہ بحث پیدا نہیں ہوتی کہ آیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی بنیاد پر مانتے ہیں یا قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر؟

     جواب: ۱۔ آپ کے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام شافعی کی بات کو صحیح زاویۂ نظر سے نہیں سمجھا گیا۔ یہ تعلق کا مغالطہ ہے جس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ امام صاحب یہاں ایمان بالرسالت کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اخذ دین کی بات کر رہے ہیں۔ایمانیات ان کی اس کتاب کا موضوع ہی نہیں ہے۔ دیگر اصولیین بھی جب اس تناظر میں کلام کرتے ہیں تو وہ ایمانیات کے حوالے سے نہیں ، بلکہ ماخذ دین کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ وہ مباحث ہیں جنھیں میں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’اصول و مبادی‘‘ کے زیر عنوان بیان کیاہے۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کیوں مانتے ہیں اور کیسے مانتے ہیں؟ یہ ماخذ دین کے نہیں، ایمانیات کے مباحث ہیں۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایمان بالرسالت کی کوئی خاص منطقی ترتیب نہیں ہو سکتی۔ صحابۂ کرام براہ راست ایمان لائے تھے، ہم اپنے والدین کی شہادت پر ایمان لائے، ایک غیر مسلم ہو سکتا ہے کہ قرآن پڑھ کر ایمان لے آئے۔ 
۲۔ اگر آپ یہ پوچھیں کہ ماخذ دین کی من جانب اللہ ترتیب کیا ہے تو وہ وہی ہے جسے میں نے ’’اصول و مبادی‘‘ میں بیان کیا ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ سے ملنے والا یہ دین قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے۔اگر بہ اعتبار حقیقت دیکھا جائے گا تو یہی ترتیب ہو گی ، بہ اعتبار علم دیکھا جائے تب بھی یہی ترتیب ہو گی، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اس بات کی تائید کے لیے قرآن کی آیت نقل کروں گا، کیونکہ وہ مستند ترین صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔سنت تو اس بات کی محتاج ہے کہ اس کو تلاش کیا جائے، مگر قرآن متعین صورت میں موجود ہے۔ (واضح رہے کہ اصولیین قرآن کو ماخذ اول اس لیے بھی قرار دیتے ہیں کہ وہ نزاع سے بالا ہے)۔
۳۔جہاں تک امام شافعی اور دیگر اصولیین کے قرآن مجید کو اخذ دین کی بنیادبنانے کے طرز فکر کا تعلق ہے تو اس کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ وہ کتاب الٰہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم مانتے ہیں اور اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں اور پھر قرآن نازل ہوا ہے، بلکہ یہ ان کی presentation ہے۔ انھوں نے اس صورت حال میں کہ دین قرآن میں بھی موجود ہے اور اس کے باہر بھی ہے، یہ presentation اختیار کی کہ اولاًقرآن ہے اور جو کچھ (سنت کی صورت میں)قرآن سے باہر ہے، اسے قبول کرنے کی دلیل بھی خود قرآن ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں جو لوگ(خوارج وغیرہ) کھڑے تھے، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ ’کتاب اللّٰہ‘ ہے،’ما أنزل اللّٰہ‘ ہے، ’تَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَيْءٍ‘ ۳؂ ہے، لہٰذا اس کے باہر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس تناظر میں امام صاحب نے سنت کے اثبات کے لیے بھی قرآن ہی کو دلیل بنایا۔ گویا انھوں نے اپنے مخاطبین کو بتایا کہ جس کتاب کو تم مان رہے ہو ، وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو وہی دینی حیثیت دے رہی ہے جس پر ہم اصرار کر رہے ہیں۔ 
۴۔ ہمارے علما دین کو قرآن مجید سے شروع کرتے ہیں۔اگر قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہوتی تو پھر یہی طریقہ بجا تھا۔ اس صورت میں پیچھے جانے کی ہر گز ضرورت نہیں تھی۔ پھر ہم یہ کہتے کہ قرآن آیا تو آخر میں ہے، لیکن اس نے تمام سابقہ علم کا احاطہ کر لیا ہے،مگر واقعے میں ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پرنماز جس کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے، اس کی کوئی تفصیل قرآن میں مذ کور نہیں ہے۔ قرآن کا اس صورت میں ہونا وہ واقعہ ہے جو پیچھے دیکھنے کی ضرورت کو پیدا کرتا ہے۔اس واقعے کو صحیح زاویے سے نہ لینا ہی ہمارے علما کی اصل غلطی ہے۔وہ غلطی یہ کر رہے ہیں کہ قرآن کو حضرت آدم سے شروع کر رہے ہیں۔جہاں تک میرامعاملہ ہے تو میرے نزدیک بنیادی مسئلہ ذرائع دین کا نہیں، بلکہ اس دینی تسلسل کاہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سے چلا آ رہا ہے اور اس content کا ہے جس کے نتیجے میں قرآن پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب کے طور پر سامنے آتا ہے۔
آپ مسئلے کو اس طرح سمجھیے کہ گذشتہ ۱۴ صدیوں میں ہمارے اہل علم کو اس سوال کا سامنا رہا ہے کہ جب قرآن کی صورت میں مستند ترین اور متعین ذریعۂ دین موجود ہے تو پھر اس سے باہر جانے کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے علما اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ضرورت خود قرآن کی پیدا کردہ ہے، کیونکہ اس نے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی تبیین کی ذمہ داری ڈالی ہے، جب کہ میں اس کے جواب میں اس امر واقعہ کو بیان کرتا ہوں کہ قرآن میں دین کا پورا content بیان ہی نہیں ہوا۔

     سوال: امام شافعی کی بحث کو کس زاویے سے لینا ہے، اس پہلو سے تو آپ کی بات سمجھ میں آ گئی ہے، مگر اس کے باوجود میں ایمان بالرسالت اور ماخذ دین کے مباحث کو الگ الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مجھے ابھی بھی یہ دونوں بحثیں لازم و ملزوم لگ رہی ہیں۔ میرے خیال میں نبی کو نبی ماننے کا مقصد ہی یہ ہے کہ دین کوحاصل کیا جائے اور اس حاصل شدہ دین کی بنا پر ایمان و عمل کے احکام کو متعین کیا جائے۔ میں اصل میں دین اخذ کرنے کے عمل اور ایمان لانے کے عمل میں کوئی تفریق نہیں کر پا رہا ،کیونکہ مجھے دونوں کا نتیجہ ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی واضح کر دیجیے کہ اجماع و تواتر اور اخبار آحاد سے دین اخذ کرنے کے معاملے میں آپ میں اور دیگر اہل علم میں اپروچ کا کیا فرق ہے؟

     جواب: ۱۔ آپ اصل میں دو چیزوں کو خلط ملط کر رہے ہیں: ایک واقعے کے جاننے کواور دوسرے ایمان لانے کو۔ یہ واقعے کو جانناہے کہ محمد بن عبداللہ ایک شخصیت تھے جنھوں نے عرب میں نبوت کا اعلان کیا تھا، قرآن پیش کیا تھا، سنت جاری کی تھی۔ یہ ایمان لانا نہیں ہے۔ ایمان لانا یہ ہے کہ ہم محمد بن عبداللہ کو جنھوں نے عرب میں نبوت کا اعلان کیا تھا، قرآن پیش کیا تھا، سنت جاری کی تھی ، اللہ کا پیغمبر اور اس کارسول مانتے ہیں اور اس حیثیت سے آپ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔واقعے کو جاننے اور ایمان لانے میں یہی وہ فرق ہے جو ایک مستشرق کی شکل میں بالکل نمایاں ہو جاتا ہے۔وہ واقعے کے وقوع پر تو کامل یقین رکھتا ہے، مگر بہ حیثیت پیغمبر آپ پر ایمان نہیں لاتااورآپ کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔
یہ واقعہ ہمیں اجماع اور تواتر سے معلوم ہوتا ہے۔اجماع اور تواتر کسی علم ،کسی خبر کو منتقل کرنے کا سیکولر ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ واقعے پر یقین کو تو لازم کرتا ہے، مگر ایمان کو لازم نہیں کرتا۔ گویااجماع اور تواتر میرے لیے ذریعۂ خبر ہے، نہ کہ وجہ استدلال۔ یعنی اجماع اور تواتر سے مجھے ایمان نہیں حاصل ہوتا، واقعے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔
’’میزان‘‘ کا آغاز میں نے اسی بیانِ واقعہ سے کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ واقعہ مجھے اجماع و تواتر سے معلوم ہوا ہے۔ 
اس بات کو ذہن نشین رکھیے کہ جب میں ’’میزان‘‘ میں،امام شافعی’’ الرسالہ‘‘ میں یا کوئی اور صاحب علم اپنی کتاب میں ماخذ دین کو بیان کر تا ہے تو وہ واقعے سے استخراج کر رہا ہوتاہے، ایمان سے استخراج نہیں کر رہا ہوتا ۔ یعنی ہم یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم دین کو اخذ کیسے کر رہے ہیں، یہ نہیں بتا رہے ہوتے کہ فلاں فلاں بات پر ہم کیوں اور کیسے ایمان لائے ہیں۔ چنانچہ یہ واضح رہے کہ واقعے سے استخراج کے لیے ایمان ناگزیر نہیں ہے۔ 
۲۔ کسی کی کوئی بات سمجھنی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھناچاہیے کہ اس کو الجھن کہاں سے پیدا ہوئی ہے۔
کیا آپ متعین طور پر بتا سکتے ہیں کہ امام شافعی سے لے کر مو لانا مودودی تک مسلمانوں کے علم کی الجھن کیا ہے؟ — یہ الجھن اخبار آحاد کا وجود پذیر ہونا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے انفرادی ذرائع سے بعض ایسی باتیں سامنے آ گئی ہیں جن کے بارے میں علم و عقل یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ باتیں آپ ہی کی ہو سکتی ہیں۔ علم و عقل کی اس گواہی کے بعد ان سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب ان کا کیا کیا جائے؟یہ باتیں کتاب الٰہی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں اور دین کے content پر بھی۔ ان کو کہیں بٹھانا ہے، ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہے امام شافعی کی الجھن۔ یعنی وہ (زبانِ حال سے) یہ کہتے ہیں کہ اگر میں انھیں نہیں مانتا تو میرا علم و عقل کہتا ہے کہ میں غلطی کر رہا ہوں۔
ایک چیز ہے منطقی طور پر کسی چیز کا یقینی یا ظنی ہونا اور ایک چیز ہے آپ کا نفسیاتی طور پر اس کو یقینی یا ظنی حیثیت دینا۔ اس کو ہمارے علما ایسے بیان کرتے ہیں کہ بات محفوف بالقرائن ہو گئی ہے۔ یعنی ہے تو وہ خبر واحد ہی، مگر اس کے گرد اس قدر قرائن جمع ہو گئے ہیں اور انھوں نے اس کو گھیر کر اس جگہ پہنچا دیا ہے کہ جہاں میں اسے منطقی طور پر تو یقینی نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے یقین میں کوئی کمی بھی نہیں ہوتی۔ یہ الجھن ہے۔ 
اس الجھن کے تناظرمیں جب آپ’’ الرسالہ‘‘ کو پڑھیں گے تو آپ کو ان کی بات زیادہ سمجھ میں آئے گی اور پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ’’ الرسالہ‘‘ اصل میں اخبار آحاد کی حجیت ثابت کرنا چاہتی ہے۔ اس کی ساری بحثیں آپ کو اسی محور کے گرد گھومتی نظر آئیں گی۔ یہی وہ مقصود ہے جس کو حاصل کرنے لیے امام شافعی اور ان کے بعد مولانا مودودی تک، سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کو اسٹیبلش کرتے ہیں اور آپ کے مامور من اللہ اور مطاع ہونے کو بنیاد بناتے ہیں۔ یہ ساری بحثیں ان کو اس لیے کرنی پڑی ہیں کہ آں جناب صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی چیزیں پہنچ گئی ہیں جن کا انکار کرنا مکابرت ہے۔ یعنی سلف یا راسخ العقیدہ علما بالکل بجا طور پر اپنے ضمیر میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ اخبار آحاد کو رد کرنا صریحاً خلاف علم و عقل بات ہے ۔ 
وہ اس مکابرت پر نہیں اترتے جس طرح کی بات اسلم جیراج پوری اور پرویز صاحب کرتے ہیں کہ یہ ایک عجمی سازش ہے۔ پھر یہ دراز نفسی شروع ہو جاتی ہے کہ دیکھیے دو تین سو سال ہو گئے تھے، اس کے بعد امام بخاری اٹھے، جن کاتعلق عرب سے نہیں، بلکہ بخارا سے تھا وغیرہ وغیرہ ... یہ طرز استدلال یہ نہیں کہتا کہ تمام اخبار آحاد غلط ہیں، بلکہ یہ کہتا ہے کہ یہ جس طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں، اس کے بعد یہ، یہ حیثیت ہی نہیں رکھتے کہ ان کو کسی طریقے سے بھی قرآن پر یا دین پر اثر انداز ہونے دیا جائے۔
یعنی یوں سمجھیے کہ ایک طریقہ یہ تھاکہ اخبار آحادکے مشمولات کو ناقابل اعتبار قرار دے کر قرآن کو اور دین کو ان سے مجرد کر دیا جائے۔ پرویز صاحب، اسلم جیراج پوری صاحب، عبداللہ چکڑالوی صاحب اور اس طرح کے بعض دوسرے لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ایک جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کی بنیاد پر ان اخبار آحاد کے اثبات کے عمل کوآخری درجے میں موکد کیا جائے اور دوسری جانب قرآن کا ان پر انحصار ثابت کیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ وہ تو یہ بھی نہیں بتا رہا کہ چورکا ہاتھ کہاں سے کاٹنا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جسے امام شافعی سے لے کر مولانا مودودی تک، ہمارے علما نے اختیار کیا ہے۔ درمیان میں ایک بڑا آدمی ابن حزم کھڑا ہے جس نے ان سے ہٹ کر ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ اس نے کہا کہ خدا کی حفاظت جس طرح قرآن کو حاصل ہے، اسی طرح اخبار آحاد کو بھی حاصل ہے۔ 
میں نے اس کے بجاے حقیقت واقعہ کو بیان کرنے کی اپروچ اختیار کی ہے۔ میں نے یہ بتایا ہے کہ اخبار آحاد سے حاصل ہونے والا علم قرآن و سنت ہی میں محصور دین کی تفہیم و تبیین ہے، اس لیے نہ یہ قرآن پر اثر انداز ہوتا ہے اور نہ دین کے content میں کوئی اضافہ کرتا ہے۔ جب اس کی نوعیت یہ ہے تو نہ مجھے اس کی تردید کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ناگزیر ہونا ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو پوری طرح واضح کر دیا جائے کہ یہ قرآن و سنت میں محصور دین کی کیسے تفہیم و تبیین کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ میں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں نکالا ،بلکہ واقعے کی اصل حقیقت کو بیان کیا ہے۔

________

۱؂ النساء ۴: ۵۹۔
۲؂ البقرہ ۲: ۱۲۹۔ 
۳؂ الانعام ۶: ۱۵۴۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2018
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Nov 16, 2018
3263 View