بیمہ - جاوید احمد غامدی

بیمہ

 بیمہ یا انشورنس ایک نوعیت کا عقد معاونت ہے جس میں لوگ ایک متعین رقم بالاقساط اِس لیے ادا کرتے ہیں کہ اُن میں سے کسی کے جان و مال کو کوئی نقصان پہنچے تو لوگوں کی جمع شدہ رقوم سے ایک مقررہ قاعدے کے مطابق اُس کے نقصان کا ازالہ کر دیا جائے۔ یہ رقوم کبھی واپس نہیں کی جاتیں، بلکہ جو افراد یا ادارے یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں، اُنھیں اِس عقد معاونت کے شرکا یہ حق بھی دیتے ہیں کہ اپنی اِس خدمت کے معاوضے میں اُن کی جمع شدہ رقوم کو وہ جس طرح چاہیں، استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ ایک غیرمعمولی اسکیم ہے جو نقصان کے ازالے اور مشکل حالات میں لوگوں کی معاونت کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اِس کی افادیت اب ہر جگہ تسلیم کی جاتی ہے۔ قبیلہ، برادری اور عاقلہ کا نظم ختم ہو جانے کے بعد یہ ایک بہترین متبادل ہے جو دورحاضر کی معیشت نے دنیا کو فراہم کیا ہے۔ اِس میں بظاہر کوئی قباحت نظر نہیں آتی، لیکن علما بالعموم اِسے حرام قرار دیتے ہیں۔ اُن کی طرف سے جو اعتراضات اِس اسکیم پر کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ بیمہ کے ادارے کسی نقصان کی صورت میں جو رقم ادا کرتے ہیں، وہ اداشدہ قسطوں سے بالعموم زیادہ ہوتی ہے۔ یہ سود ہے اور سود اسلامی شریعت میں ممنوع ہے۔ پھر یہ ادارے آگے بھی اپنے اموال سودی کاروبار میں لگاتے ہیں جس کا کچھ نہ کچھ حصہ اُن لوگوں کو بھی پہنچ جاتا ہے جنھیں ازالۂ نقصانات کے لیے رقوم ادا کی جاتی ہیں۔
۲۔ بیمہ کرانے والے بارہا معمولی رقم کے عوض موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں بڑی بڑی رقمیں وصول کر لیتے ہیں۔ یہ جوا ہے اور جوا بھی اسلامی شریعت میں ممنوع ہے۔
۳۔ بیمہ جس چیز کے لیے کیا جاتا ہے، اُس کا وجود متحقق نہیں ہوتا، محل عقد بھی غیرواضح ہوتا ہے اور بیمہ کرانے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ اُنھیں کب تک اور کتنی اقساط دینا پڑیں گی۔ فقہا کی اصطلاح میں یہ تینوں چیزیں بالترتیب غرر، غبن اور جہالت کہلاتی ہیں جن کے ساتھ کوئی معاہدہ جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح کے معاہدات سے منع فرمایا ہے۔
یہ تینوں اعتراضات، اگر غور کیجیے تو بالکل بے بنیاد ہیں۔
پہلا اِس لیے کہ بیمہ میں جو رقوم بالاقساط ادا کی جاتی ہیں، وہ کوئی قرض نہیں ہوتیں۔ اپنی معاونت کے وعدے پر وہ دوسروں کی معاونت کے لیے دی جاتی ہیں، لہٰذا کبھی واپس نہیں لی جاتیں۔ بیمہ کے ادارے اُنھیں سودی کاروبار میں لگاتے ہیں تو اپنے حق استعمال کی بنا پر لگاتے ہیں۔ اِس کی کوئی ذمہ داری بیمہ کرانے والوں پر عائد نہیں ہوتی۔ بیمہ جس معاملے کے لیے کرایا جاتا ہے، وہ پیش آجائے تو جو کچھ ملتا ہے، معاہدے کی رو سے دوسروں کی جمع شدہ رقوم سے ملتا ہے۔ بیمہ کی حقیقت یہی ہے اور اِسے اِسی لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔
دوسرا اِس لیے کہ جوا ایک کھیل اور نری قسمت آزمائی ہے۔ اِس میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں، وہ ازالۂ نقصانات کے لیے ایک دوسرے کی معاونت کا کوئی نظم قائم کرنے کے لیے شریک نہیں ہوتے۔ دونوں کی حقیقت الگ ہے اور دین کے احکام ادنیٰ مماثلت پر نہیں، بلکہ اشیا کی حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور اِسی پر مبنی ہونے چاہییں۔
تیسرا اِس لیے کہ غرر، غبن اور جہالت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سدذریعہ کے طور پر اور بیع و شرا میں رفع نزاعات کے لیے ہیں۔ بیمہ بیع و شرا کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ یہ باہمی تعاون کی ایک اسکیم ہے جس کا اہتمام کرنے والے افراد اور اداروں کو اُن کی خدمت کے معاوضے میں جمع شدہ رقوم کو استعمال کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اِس کی اِس حقیقت کو نظرانداز کر کے اِس پر کوئی حکم لگانا کسی طرح موزوں نہیں ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2010
مصنف : جاوید احمد غامدی