اجتہاد - سید منظور الحسن

اجتہاد

[جناب جاوید احمد غامدی کی ایک گفتگو سے ماخوذ]

قرآن و سنت کے ذریعے سے ہمیں جو دین ملا ہے، اس کے دواجزا ہیں: ایک الحکمہ اور دوسرے الشریعہ ۔
’الحکمۃ‘، ایمانیات اور اخلاقیات کے مباحث پر مبنی ہے۔توحید ، رسالت ، آخرت اور اس نوعیت کے دوسرے موضوعات ایمانیات کے ذیل میں اورعدل، رحم، احسان، حیا اور ان جیسے فطرت انسانی کے مسلمہ حقائق اخلاقیات کے ضمن میں زیر بحث آتے ہیں۔موجودہ زمانے کی اصطلاح میں ہم ان مباحث کو فلسفہ و حکمت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
’الشریعۃ‘ سے مراد مراسم عبودیت اور معاملات زندگی سے متعلق وہ قواعد و ضوابط ہیں جنھیں انسان اپنی عقل و فطرت کی بعض محدودیتوں کی وجہ سے بہ تمام و کمال دریافت نہیں کر سکتا ۔ شریعت کے یہ قواعد و ضوابط بہت وضاحت کے ساتھ قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں۔ اس کے تحت بندگی رب کے طریقے اور معاشرت، معیشت، سیاست، دعوت، جہاد، حدودوتعزیرات اور خورونوش جیسے معاملات زندگی کے بارے میں اصول وضوابط اور حدود و قیود بیان کیے جاتے ہیں۔انھی کی بجا آوری پر انسان کی اخروی فوز و فلاح کا انحصار ہے ۔
شریعت کے بارے میں قرآن مجید کے مطالعے سے حسب ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔ شریعت سر تا سر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور ان امورکے بارے میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے جن سے انسان ناواقف ہو یا اس کی عقل صحیح رہنمائی کرنے سے قاصر ہو۔
۲۔شریعت واضح اور متعین ہے۔ اس کی پیروی لازم ہے ۔ اس کے مقابل میں کسی اور چیز کی پیروی ممنوع ہے ۔
۳۔اسلام سے پہلے انسانی تمدن میں ارتقا اور تغیر کے باعث اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کی تھی۔
۴۔ دین کی تکمیل کے ساتھ ہی شریعت بھی مکمل ہو گئی ۔ چنانچہ اب رہتی دنیا تک اسلامی شریعت ہی قطعی اور حتمی شریعت ہے۔
۵۔ اسلامی شریعت کے سوا کسی اور شریعت کو اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت حاصل نہیں ہے۔
۶۔اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد کسی شخص کے لیے اس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ وہ شریعت سے انحراف یا اس میں تغیر و تبدل کر سکے۔
۷۔ شریعت نہایت مختصر ہے۔
۸۔ بیش تر معاملات میں شریعت اصول وضع کرتی ہے اور جزئی تفصیلات کو بیان نہیں کرتی ۔
اس شریعت کو جب ہم اپنے انفرادی یا اجتماعی وجود پرقانون کی صورت میں نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تواس موقع پر دو طرح کے امور ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
ایک وہ امور جن میں شریعت کی طرف سے قانون سازی موجود ہے اور دوسرے وہ امور جن میں شریعت خاموش ہے ۔ پہلی نوعیت کے امور میں ہم شریعت پر غوروتدبر کر کے اس کے مدعا اور منشا کو متعین کرتے ہیں۔ دوسری نوعیت کے امور میں ہم شریعت کے منشا تک پہنچنے کے لیے ’’اجتہاد‘‘ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔
اجتہادکا مفہوم
اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی و جہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن و سنت خاموش ہیں ، اس میں نہایت غور و خوض کر کے دین کے منشا کو پانے کی جد و جہد کی جائے۔یہ اصطلاح جس ماخذ سے وجود پذیر ہوئی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت ہے۔ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدنا معاذ بن جبل کے ساتھ ایک گفتگو پر مبنی ہے:
حدثنا حفص بن عمر عن شعبۃ عن أبی عون عن الحارث بن عمرو بن أخی المغیرۃ بن شعبۃ عن أناس من أہل حمص من أصحاب معاذ بن جبل أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لما أراد أن یبعث معاذًا إلی الیمن قال کیف تقضی إذا عرض لک قضاء قال أقضی بکتاب اﷲ قال فإن لم تجد فی کتاب اﷲ قال فبسنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال فإن لم تجد فی سنۃ رسول اﷲ ولا فی کتاب اﷲ قال أجتہد رأیی ولا آلو فضرب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صدرہ وقال الحمد ﷲ الذی وفق رسول رسول اﷲ لما یرضی رسول اﷲ.(ابو داؤد، رقم ۳۱۱۹)
’’سیدنا معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو فرمایا : جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لیے آئے گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ میں نے جواب دیا: میں اس کا فیصلہ اللہ کی کتاب کی روشنی میں کروں گا۔فرمایا: اگر تمھیں اللہ کی کتاب میں اس کے متعلق کوئی واضح بات نہ ملے تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا: پھر رسول اللہ کی سنت کے مطابق کروں گا ۔ پھر فرمایا : اگر رسول اللہ کی سنت اور اللہ کی کتاب میں بھی اس کے متعلق کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا :تو پھر میں اجتہاد کروں گا اور اس اجتہاد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سن کر میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : اس اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے نمائندے کو اس بات کی توفیق دی جو رسول اللہ کو پسند ہے۔‘‘
اس روایت کے الفاظ ’أجتھد رأیی‘سے’’ اجتہاد‘‘ کا لفظ ہمارے ہاں فقہ و قانون میں بطور اصطلاح استعمال ہونے لگا ہے۔
اس اصطلاح کو اگر مذکورہ روایت کی روشنی میں سمجھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد سے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان امور کے بارے میں راے قائم کرنا ہے جن میں قرآن و سنت خاموش ہیںیا انھوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔ اس کے مضمون سے البتہ، یہ تاثر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی کوئی بات ضرور ارشاد فرمائی ہو گی ۔ مزیدبراں حضرت عمر اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے منسوب حسب ذیل روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کے نام فرمان جاری کیا :
اقض بما فی کتاب اﷲ فإن لم یکن فی کتاب اﷲ فبسنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فإن لم یکن فی کتاب اﷲ ولا فی سنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاقض بما قضی بہ الصالحون فإن لم یکن فی کتاب اﷲ ولا فی سنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ولم یقض بہ الصالحون فإن شئت فتقدم وإن شئت فتأخر ولا أری التأخر إلا خیرًا لک والسلام علیکم.(نسائی، رقم ۵۳۰۴)
’’جب تمھیں اللہ کی کتاب میں کوئی بات مل جائے تو اس کے مطابق فیصلہ کرو اور اس کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ مت کرواور اگر اللہ کی کتاب میں نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو، اور اگر نہ کتا ب اللہ میں ملے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تو صالحین کے فیصلوں کے مطابق فیصلہ کرو، اور جب کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے متعلق نہ اللہ کی کتاب میں ہو، نہ رسول اللہ کی سنت میں کچھ ہو اور نہ تم سے پہلے کسی اور ہی نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو تم اس معاملے میں اجتہاد کرنا چاہو تو اجتہاد کرو اور اگر توقف کرنا چاہو تو توقف کرو اور میں توقف کو تمھارے لیے بہتر خیال کرتا ہوں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فمن عرض لہ منکم قضاء بعد الیوم فلیقض بما فی کتاب اﷲ فإن جاء أمر لیس فی کتاب اﷲ فلیقض بما قضی بہ نبیہ فإن جاء أمر لیس فی کتاب اﷲ ولا قضی بہ نبیہ صلی اﷲ علیہ وسلم فلیقض بما قضی بہ الصالحون فإن جاء أمر لیس فی کتاب اﷲ ولا قضی بہ نبیہ صلی اﷲ علیہ وسلم ولا قضی بہ الصالحون فلیجتہد رأیہ ولا یقول إنی أخاف وإنی أخاف.
(نسائی ، رقم ۵۳۰۲)
’’پس اب تم میں سے جس کے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے پیش ہو تو اسے چاہیے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور اگر ایسا کوئی معاملہ آ جائے جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو اس کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق کرے ۔ اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ اس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو تو صالحین نے اس کا جو فیصلہ کیا ہو، اس کی پیروی کرے ، لیکن اگر ایک معاملہ ایسا آ جائے جو نہ کتاب اللہ میں ہو ، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اور نہ صالحین نے اس سے پہلے کبھی اس کا فیصلہ کیا ہو تو اپنی راے سے (حق و صواب تک پہنچنے

کی) پوری کوشش کرے اور یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا ہوں ، میں ڈرتا ہوں ۔ ‘‘
اجتہاد کا طریق کار
اگر کسی معاملے میں شریعت نے قانون سازی نہیں کی تو اس معاملے میں اجتہاد کے لیے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے معاملے میں کوئی قانون موجود ہے ۔ اگر کوئی قانون موجود ہے تو اس پر قیاس کر کے قانون وضع کر لیا جائے گا ۔ اگر کسی مشابہ معاملے میں قانون موجود نہیں ہے تو پھر یہ معلوم کیا جائے گا کہ شریعت میں کیا کوئی ایسا اصول موجود ہے جس سے اس معاملے کے ضمن میں رہنمائی مل سکے ۔ اگر کوئی اصولی ہدایت موجود ہے تو ا س سے استنباط کر کے قانون بنا لیا جائے گا ۔ اگر کوئی مشابہ معاملہ بھی موجود نہ ہو اور نہ اصولی ہدایت میسر ہو تو اپنی عقل سے کوئی راے قائم کر کے اس کے مطابق قانون سازی کر لی جائے گی ،مگر اس موقع پر اس بات کاہر حال میں لحاظ رکھا جائے گا کہ کوئی بات شریعت کے منشا کے خلاف یا اس کے حدود سے متجاوز نہ ہو ۔
اجتہاد کا دائرۂ کار
مندرجہ بالا روایت کی روشنی میں اجتہاد کے دائرۂ کار کو حسب ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے :
۱۔اجتہاد کا تعلق انھی معاملات سے ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے دین و شریعت سے متعلق ہیں۔
۲۔انسانوں کو انفرادی یا اجتماعی حوالے سے جب بھی قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو انھیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآن و سنت سے رجوع کریں ۔
۳۔ جن معاملات میں قرآن و سنت کی رہنمائی موجود ہے، ان میں قرآن و سنت کی پیروی لازم ہے ۔
۴۔ جن معاملات میں قرآن و سنت خاموش ہیں ،ان میں انسانوں کو چاہیے کہ اپنی عقل و بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے آرا قائم کریں ۔
ان نکات کی بنا پر یہ بات بطور اصول بیان کی جا سکتی ہے کہ شریعت محل اجتہاد نہیں ہے، بلکہ محل اتباع ہے۔ محل اجتہاد صرف وہی امور ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے۔ چنانچہ اجتہادی قانون سازی کرتے ہوئے، مثال کے طور پر عبادات کے باب میں یہ قانون نہیں بنایا جاسکتا کہ تمدن کی تبدیلی کی وجہ سے اب نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائے گی؛ معیشت کے دائرے میں یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ اب زکوٰۃ ڈھائی فی صد سے زیادہ ہو گی؛سزاؤں کے ضمن میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ قتل کے بدلے میں قتل کے بجاے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔گویا شریعت کے دائرے میں علما اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم و مدعا کواپنے علم و استدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں۔اس میں ان کے لیے کسی تغیر و تبدل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔البتہ جس دائرے میں شریعت خاموش ہے، اس میں وہ دین و مذہب، تہذیب و تمدن اور عرف و رواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔
اجتہاد کی اقسام
ہمارے فقہا نے اجتہاد کی مختلف اقسام بیان کی ہیں ۔ ان میں سے دو اقسام نمایاں ہیں : ایک اجتہاد مطلق ہے اور دوسری اجتہاد مقید ہے۔ اجتہاد مطلق سے ان کی مراد وہ امور ہیں جو بالکل نئے ہوں اورجن کے بارے میں اجتہاد کی مثال تاریخ میں موجود نہ ہو۔ اجتہاد مقید ان مسائل سے متعلق ہوتا ہے جو ماضی میں بھی پیش آئے ہوں اور جن پر اجتہادی کام کے نظائر بھی تاریخ میں موجود ہوں۔
ہمارے نزدیک ،اجتہادی کام کی اس طرح کی تقسیم تفہیم مدعا کے لیے تو مفید ہو سکتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتہاد کی ایک ہی نوعیت ہے اور وہ ان معاملات میں راے قائم کرنا ہے جن میں شریعت نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو۔
اجتہاد کے شرائط
ہمارے روایتی علم فقہ میں مجتہد کے لیے کچھ ناگزیر شرائط کا تعین کیا جاتا ہے۔ان میں سے نمایاں شرائط یہ ہیں:
۱۔ مجتہد ماخذ دین کی زبان، یعنی عربی سے کما حقہ واقف ہو۔
۲۔ قرآن مجید کا جید عالم ہو۔
۳۔ سنت ،حدیث اور عمل صحابہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔
۴۔ماضی کے اجتہادی اور فقہی کام پر گہری نظر رکھتا ہو۔
۵۔ صاحب تقویٰ ہو۔
یہ سب شرائط قابل لحاظ ہیں اور ان میں زمانے کی ضروریات کے پیش نظر بعض اضافے بھی کیے جا سکتے ہیں، مگر ہمارے نزدیک اجتہاد کے معاملے میں اس نوعیت کے شرائط کو لازم ٹھہرانا اور ان کے بغیر کسی اجتہاد کو ناقابل قبول قرار دینا ، حسب ذیل پہلوؤں سے نامناسب ہے:
ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کی ہدایت فرماتے ہوئے یا کسی دوسرے موقع پر ،اس نوعیت کے شرائط کو متعین نہیں فرمایا ۔ چنانچہ دین کے جس معاملے میں آپ نے تحدید نہیں فرمائی ، اس میں بغیر کسی ضرورت کے ہمیں کوئی حد بندی نہیں کرنی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرائط کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اجتہادی راے کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ علم و تقویٰ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دلیل و استدلال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔دلیل اگر قوی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بعض مفروضہ شرائط کے پورا نہ ہونے کی بنا پر کسی اجتہاد کو رد کر دیا جائے اور اگر دلیل کمزور ہے تو اجتہاد خواہ کیسی ہی جامع الشرائط شخصیت نے کیا ہو، اسے بہر حال ناقابل قبول قرار پانا چاہیے۔
تیسرے یہ کہ یہ عین ممکن ہے کہ کسی معاملے میں متعلقہ شعبے کے ماہر کی راے مذکورہ شرائط پر پورا اترنے والے کی راے سے زیادہ وقیع ہو۔ مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ طب کے کسی معاملے میں ایک ڈاکٹر کا اجتہاد، عربی زبان و ادب کے کسی فاضل کے اجتہاد کے مقابلے میں زیادہ قرین حقیقت ہو۔اسی طرح شریعت میں سود کی تعریف متعین ہو جانے کے بعداس کے اطلاق کے معاملے میں کسی ماہر معیشت کی راے کسی عالم دین کی راے سے زیادہ صائب ہو سکتی ہے۔
اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے کسی طرح کی کوئی قدغن نہیں ہے ۔ یہ دروازہ ہرمسلمان کے لیے اس کی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں پوری طرح کھلا ہے۔

اجتہاد کا نفاذ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی اجتہادی راے کے رد و قبول یا مختلف اجتہادی آرا میں سے ترجیح و اختیار کا فیصلہ کون کرے گا ؟
اجتہاد کے رد و قبول یا ترجیح و اختیار کی ضرورت دو موقعوں پر پیش آتی ہے : ایک اس موقع پر جب افراد کو ذاتی معاملات میں کوئی راے قائم کرنا ہوتی ہے اور دوسرے اس وقت جب کسی اجتماعی معاملے میں قانون سازی کی ضرورت سامنے آتی ہے۔ ذاتی معاملات میں کسی راے کو اختیار کرنے کا فیصلہ فرد کرتا ہے۔مثال کے طور پر انتقال خون کا تقاضا سامنے آنے پر وہ اس کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے راے قائم کرکے عطیہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ جہاں تک اجتماعی سطح پر کسی اجتہادی راے کو قانون کی شکل دینے کا تعلق ہے تو اس کا اختیار سر تا سر مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کو حاصل ہے ۔وہ خود بھی اجتہاد کر سکتے ہیں، کسی ماہر فن کی راے کوبھی قانون کی شکل دے سکتے ہیں اور کسی عالم دین کا نقطۂ نظر بھی قبول کر سکتے ہیں۔ فیصلہ بہرحال انھی کو کرنا ہے۔ان کی اکثریت جس اجتہاد کو قبول کر لے گی، وہی قانون کی حیثیت سے نافذالعمل قرار پائے گا۔مسلمانوں میں سے کسی شخص کے لیے اس کی خلاف ورزی جائز نہ ہو گی۔ اس سے اختلاف کا حق، البتہ ہر شخص کو حاصل رہے گا۔ ممکن ہے کہ ارباب حل و عقد کسی کی اختلافی راے سے متاثر ہو کر، بعد ازاں قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کر لیں۔ چنانچہ قرآن و سنت کی تعبیر کا مسئلہ ہو یا کسی ایسے معاملے میں اجتہاد کا جس میں شریعت خاموش ہے، یہ مسلمانوں کے منتخب نمائندے ہی ہیں جن کے فیصلے سے کوئی راے اسلامی ریاست میں قانون کا درجہ حاصل کر سکتی ہے۔
ماضی کے اجتہادی کام کی حیثیت
قانون و شریعت کے دائرے میں ہمارے جلیل القدر ائمہ نے بہت وقیع کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنے فہم کے مطابق شریعت کے مفہوم و مدعا کی تعیین، اس کی شرح و وضاحت اورمختلف معاملات پر اس کے اطلاق کا کام بھی کیا ہے اور فقہی معاملات میں اپنے حالات کے تقاضوں کے لحاظ سے اجتہادات بھی کیے ہیں۔موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص اجتہادی کام کرنا چاہے تو وہ ان کے کام سے صرف نظر نہیں کر سکتا،لیکن بہرحال یہ انسانی کام ہے ۔ انسانی کام ، ظاہر ہے کہ غلطی کے امکان اور اختلاف راے سے مبرا نہیں ہو سکتا۔لہٰذا ان کی آرا سے اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اسلامی تاریخ ان علمی اختلافات سے بھری پڑی ہے جو بعد میں آنے والوں نے ان کی آرا کے بارے میں کیے ہیں۔ ہمارے جید علما نے دین و شریعت کے معاملے میں بھی اور فقہ و اجتہاد کے معاملے میں بھی اس علمی کام میں کوئی انقطاع نہیں آنے دیا۔
اجتہاد کے بارے میں بعض غلط فہمیاں
اجتہاد ی کام کے حوالے سے ہمارے اکثر اہل علم و دانش بعض غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ اس بنا پر ہمارے ہاں اس اصطلاح کے بارے میں کافی خلط مبحث موجود ہے۔ ان غلط فہمیوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ معاملات زندگی سے متعلق ان امور میں بھی اجتہاد کیا جا سکتا ہے جن میں شریعت کی ہدایات موجود ہیں ۔مثال کے طور پر تمدنی ضروریات کے پیش نظر، خواتین کے لیے حجاب کے حدود، جہاد، طلاق، عورت کی شہادت ، دیت اور اس طرح کے بعض دوسرے امورکے حوالے سے شریعت میں تغیر و تبدل اور ترمیم و اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔
ہم تمہید میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ بات قرآن و سنت کے نصوص کے خلاف ہے۔ جن امور میں شریعت کی کوئی تصریح موجود ہے ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔زبان و بیان کے کسی علمی اختلاف کی بنا پر یہ امور محل تحقیق تو ہو سکتے ہیں، محل اجتہاد ہرگز نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ان میں قرآن و سنت کے صحیح منشا تک پہنچنے کے لیے نئی تحقیق پیش کی جا سکتی ہے اور قدما کی تحقیقات کو دلائل کی بنیاد پر غلط بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، مگر اس دائرے میں اجتہاد کا دروازہ ہرگز نہیں کھولا جا سکتا۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ امت میں اجتہاد کا دروازہ گذشتہ کئی صدیوں سے بند ہے۔
یہ بات درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں شاید ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اجتہاد کا دروازہ بند ہوا ہو۔یہ عمل پیغمبر اور صحابہ کے زمانے میں بھی جاری تھا، بعد کے ا دوار میں بھی پورے تسلسل سے قائم رہا اور آج بھی بغیر کسی انقطاع کے جاری ہے۔ اجتہاد اس وقت بھی ہوتا رہا جب اقوام عالم کی قیادت و سیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس وقت بھی ہو رہا ہے جب وہ محکومی کے دور سے گزر رہے ہیں۔اجتہاد کے بارے میں یہ تصور ہمارے علما کے تقلید جامد پر اصرار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فقہ شریعت ہی کا ایک حصہ ہے۔
فقہ ،درحقیقت وہ قانون سازی ہے جو ہمارے فقہا نے شریعت کی روشنی میں کی ہے۔ یہ الہامی نہیں ، بلکہ انسانی کام ہے ۔ یہ قوانین ہمارے فقہا نے اپنے فہم دین کے مطابق ، اپنے تمدن کے تقاضوں کے پیش نظر اور اپنے سیاسی و معاشرتی حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضع کیے ہیں۔یہ ہمارے لیے واجب الاطاعت نہیں ہیں۔ہم ان کی آرا سے اختلاف کر سکتے ہیں اور شریعت کی روشنی میں اپنے حالات کے لحاظ سے، جب چاہیں نئی فقہ مرتب کر سکتے ہیں۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت جون 2001 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
3599 View