حضرت سہیل بن بیضا رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سہیل بن بیضا رضی ﷲ عنہ

 حضرت سہیل کے والد کا نام وہب بن ربیعہ تھا، لیکن انھیں ان کی والدہ بیضا سے منسوب کیا جاتا ہے جن کا اصل نام دعدبنت جحدم اوربیضا لقب تھا۔ حضرت سہیل کے بھائی سہل اور صفوان بھی اپنی والدہ ہی سے منسوب کیے جاتے تھے۔ فہر بن مالک حضرت سہیل کے ساتویں (ابن سعد) یا آٹھویں(ابن عبدالبر) جدتھے جن کی نسبت سے وہ فہری کہلاتے ہیں۔ابن اثیرنے حضرت سہیل کا شجرہ بیان کرتے ہوئے تیسرے ،چوتھے اور پانچویں آبا کی جگہ عمرو ،عامر اور ربیعہ کا اضافہ کر دیا ہے، اس طرح فہر دسویں پشت پر آ جاتے ہیں۔یہ نسب درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ یہی فہر حضرت سہیل کی والدہ دعد (بیضا) کے چھٹے (یا بہ اختلاف روایت پانچویں) جد بتائے جاتے ہیں۔زوجین کے سلسلہ ہاے نسب میں چار پشتوں کا فرق محال نظر آتا ہے۔ بنو فہر (یا بنوحارث بن فہر)قریش ہی کی ایک شاخ تھی۔ بانی قریش نضر بن کنانہ فہر کے دادا تھے۔ اگرچہ حضرت عمار بن یاسر آں حضور صلی اﷲ علیہ کے ہم عمر یا آپ سے کچھ بڑے تھے، تاہم حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر اور حضرت سہیل بن بیضا کا شمار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بڑی عمروالے اصحاب میں ہوتا تھا۔ ابوموسیٰ ( ابو امیہ: ابن عبدالبر) حضرت سہیل کی کنیت تھی۔
ابن اسحاق کی مرتبہ ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کی فہرست میں حضرت سہیل بن بیضا کا نام نہیں دیا گیا، تاہم ان کا شمار ابتدائی مسلمانوں میں ہوتا ہے۔اس کابین ثبوت یہ ہے کہ وہ حبشہ کی طرف جانے والے مہاجرین کی پہلی جماعت میں شامل ہوئے۔طلوع اسلام کے بعد مکہ کے کمزور مسلمان قریش کی پے در پے ایذا رسانیوں کا شکارہوئے تو نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے انھیں ہدایت فرمائی: ’’تم حبشہ کی طرف کیوں نہیں نکل جاتے، اس لیے کہ وہاں ایسے بادشاہ کی حکومت ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،( وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اﷲ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔‘‘آپ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے رجب ۵ ؍ نبوی میں دس مرد اور چار عورتیں (السیرۃ النبوےۃ)کچھ پیادہ، کچھ سوارشعیبہ کے ساحل سمندر پر پہنچے اور حبشہ جانے کے لیے نصف دینار کرایے پر کشتی حاصل کی ۔ان اصحاب رسول کے اسما یہ ہیں: حضرت عثمان بن عفان، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، ان کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل، حضرت زبیربن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ بن ابوامیہ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، ان کی اہلیہ حضرت لیلیٰ بنت ابوحثمہ(یا ابو خیثمہ)، حضرت ابوسبرہ بن ابورہم اور حضرت سہیل بن بیضا۔ ابن سعد، طبری، ابن جوزی اور ابن کثیرنے اس فہرست میں حضرت حاطب بن عمرو، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت عبداﷲ بن بیضا کا اضافہ کیا ہے۔ ابن ہشام نے حضرت عبداﷲ بن مسعود کو مہاجرین حبشہ کے دوسرے گروپ میں شامل کیا ہے جو حضرت جعفر بن ابوطالب کی قیادت میں حبشہ روانہ ہوئے۔ مہاجرین کے دونوں قافلوں کی کل تعداد تراسی بنتی ہے۔ حضرت سہیل بن بیضا پر ان کے قبیلے یا خاندان کی طرف سے کیے جانے والے ظلم تاریخ کے اوراق میں جگہ نہیں پا سکے، تاہم اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان پربھی دور ابتلا گزرا ہو گا جس کی وجہ سے انھیں مہاجرین کے پہلے قافلے ہی میں شامل ہونا پڑا۔
شوال ۵ ؍ نبوی میں جب مشرکین قریش کے ایمان لانے اوران کی طرف سے مسلمانوں پرروا رکھے جانے والے مظالم بند ہونے کی افواہ حبشہ پہنچی تو وہاں پر مقیم اکثرصحابہ نے اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹنے کا قصد کیا۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو وہ پھرحبشہ لوٹ گئے ،یہ ان کی ہجرت ثانیہ تھی۔ تاہم حضرت عثمان بن عفان، حضرت رقیہ بنت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت سہلہ بنت سہیل، حضرت زبیربن عوام، حضرت مصعب، حضرت ابوعبیدہ، حضرت عبدالرحمن، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبداﷲ بن جحش، حضرت ابوسلمہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت سہیل بن بیضا ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو حبشہ واپس نہ گئے۔ حضرت سہیل نے کسی کافر کی پناہ لیے بغیر مکہ ہی میں سکونت اختیار کر لی اور اذن ملنے پرباردگریہیں سے مدینہ کو ہجرت کر گئے۔ اس طرح انھیں جمع بین الہجرتین کا شرف حاصل ہوا۔ مدینہ میں حضرت سہیل بن بیضا اور ان کے بھائی حضرت صفوان کئی اور صحابہ کی معیت میں حضرت کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مدینہ تشریف آوری کے بعد اولاً انھی کے ہاں قیام فرمایا۔
ہجرت کے پہلے سال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پینتالیس مہاجرین کی پینتالیس انصار سے مواخات قائم فرمائی، ان اہل مواخات میں حضرت سہیل بن بیضا کا نام مذکور نہیں ۔
اواخرجمادی الثانی یا رجب ۲ھ (جنوری۶۲۴ء) میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداﷲ بن جحش کی سربراہی میں نو(بارہ :ابن سعد) مہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن (یا عمار بن یاسر)، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عامر بن فہیرہ (یا عامر بن ربیعہ: ابن ہشام)، حضرت واقد بن عبداﷲ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا (شاذ روایت: صفوان بن وہب) چھ اونٹوں پر سوار اس دستے میں شامل تھے۔ آپ نے حضرت عبداﷲ کو ایک خط دے کر فرمایا: مدینہ سے مکہ کی جانب دو دن کا سفر، یعنی اٹھائیس میل کی مسافت طے کر لینے کے بعد وادی ملل (یا ابن ضمیرہ کے کنویں پر) پہنچ کر اسے پڑھنا ۔جب خط کھولا تو لکھاپایا: ’’مکہ اور طائف کے بیچ واقع مقام نخلہ کی طرف سفر جاری رکھو،تمھارے ساتھیوں میں سے جو آگے نہ جانا چاہے، اسے مجبور نہ کرو۔ وہاں پہنچ کرقریش کی نگرانی کرو اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرو ۔‘‘ حضرت سہیل بن بیضا سمیت تمام شرکا شوق شہادت سے سرشار تھے، اس لیے سفرمنقطع نہ کیا۔دستہ فرع سے آگے بحران کے مقام پرپہنچا تو عتبہ بن غزوان اور سعدکا مشترکہ اونٹ کھو گیا۔ دونوں اسے تلاش کرنے لگ گئے،ابن جحش باقی ساتھیوں کو لے کر چلتے رہے اور نخلہ پہنچ گئے۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر چار افراد پر مشتمل قریش کا قافلہ گزرا۔ اہل قافلہ انھیں دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تو عکاشہ نے سر منڈا لیا، کفار کو مغالطہ ہوا کہ مسلمان عمرہ کے لیے جا رہے ہیں اور مطمئن ہو گئے۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا، یہ رجب کی آخری تاریخ ہے۔اگر قافلے والوں کو چھوڑ دیا تو یہ حرم پہنچ کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال کیا تو یہ حرام مہینے میں ہو گا۔ کچھ تردد کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔ مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے، حضرت واقد بن عبداﷲ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیا اور عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل بن عبداﷲ فرار ہو گیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد یہ ساتویں مہم اور پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل، عثمان اور حکم پہلے اسیر ہوئے۔ حضرت عبداﷲ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کر کے ۵؍۱ حصہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالاں کہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا اور زمانۂ جاہلیت میں سرداران قوم کے لیے ربع غنیمت ( مرباع) مختص کرنے کی نظیر پائی جاتی تھی۔
اہل سریہ مدینہ پہنچے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں ماہ حرام، رجب میں جنگ کرنے کو نہیں کہا تھا۔ آپ نے مال غنیمت اور اسیروں کے معاملے میں توقف کیااور کچھ لینے سے انکار فرما دیا تو صحابہ پشیمان ہو گئے کہ شاید وہ ہلاکت میں پڑگئے ۔مسلمان بھائیوں نے ان کوبرابھلا کہا تو قریش نے بھی طعنہ زنی کی۔چہ میگوئیاں بڑھ گئیں تو ارشاد ربانی نازل ہوا:

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ م بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.(البقرہ۲: ۲۱۷)
’’آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کی بابت سوال کرتے ہیں۔کہہ دیجیے،اس مہینے میں جنگ کرنا بہت برا ہے، ( اس کے ساتھ ساتھ) لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنا، اﷲ کو نہ ماننا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو نکال باہر کرنااﷲ کے ہاں اس سے بھی بد تر ہے اور فتنہ وفساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔‘‘

اس حکم وحی کے بعد آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ حضرت سعد اور حضرت عتبہ صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نے سولہ سو دینار فدیہ لے کر قریش کے اسیروں عثمان اور حکم کو چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔
حضرت سہیل بن بیضا نے جنگ بدر میں حصہ لیا توان کی عمر چونتیس برس تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں: غزوہ کے اختتام پر قریش کے قیدی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو آپ نے صحابہ سے ان قیدیوں کے بارے میں مشورہ فرمایا۔ سیدنا ابوبکر نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، یہ آپ کی قوم اورآپ کے اعزہ و اقارب ہیں،انھیں زندہ رہنے دیجیے اور ان سے نرمی برتیں،ہو سکتا ہے،انھیں اﷲ کی طرف سے توبہ کی توفیق مل جائے ۔‘‘ سیدنا عمر کا کہنا تھا: ’’یا رسول اﷲ، انھی لوگوں نے آپ کو شہر مکہ سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ ان کی گردنیں اڑادیجیے۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سجھاؤ دیا: ’’یا رسول اﷲ، اس وادی کو دیکھیں جس میں بے شمار بالن ہے ، مشرکوں کو اس میں گھسیڑدیں اورآگ لگا دیں۔‘‘ مشرک فوج کی طرف سے حصہ لینے والے آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے اعتراض کیا کہ آپ قطع رحمی کر رہے ہیں۔ آپ خاموش رہے توکچھ صحابہ نے اندازہ لگایا کہ آپ سیدنا ابوبکر کا مشورہ مان لیں گے، دوسروں کا خیال تھا کہ حضرت عمر اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ کی راے کو ترجیح دیں گے۔ آپ سامنے آئے تو فرمایا: اﷲ اس باب میں کچھ لوگوں کے دل دودھ سے زیادہ نرم اور دوسروں کے پتھر سے زیادہ سخت کر دے گا۔ پھر سیدنا ابوبکرسے مخاطب ہوئے: تمھاری مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے جنھوں نے فرمایا تھا:

فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(سورۂ ابراہیم ۱۴: ۳۶)
’’سو جو میری پیروی کرے گا مجھ سے ہو گا اورجو میری نافرمانی کرے گا تو تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

تمھاری مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بھی ہے جنھوں نے کہا:

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(المائدہ۵: ۱۱۸)
’’اے اﷲ، تو اگر انھیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو معاف کر دے تو تو ہی ہے غالب، حکمت والا۔‘‘

سیدنا عمر کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا: تمھاری مثال حضرت نوح علیہ السلام کی ہے جنھوں نے فرمایا تھا:

رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا.(نوح ۷۱: ۲۶)
’’اے میرے رب،روے زمین پر کافروں میں سے ایک متنفس کو بھی زندہ نہ چھوڑنا۔‘‘

اور تمھاری مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بھی ہے جن کا کہنا تھا:

رَبَّنَا اطْمِسْ عَلآی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ.(یونس۱۰: ۸۸)
’’اے ہمارے رب، ان کے مال ملیا میٹ کر دے اور ان کے دل سخت کر دے تاکہ وہ ایمان نہ لانے پائیں، حتیٰ کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: تم تنگ دست ہو، ان قیدیوں میں سے کوئی بھی چھوٹنے نہ پائے ، وہ فدیہ دے یا اس کی گردن اڑا دی جائے۔ حدیث کے راوی حضرت عبداﷲ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اﷲ، سواے سہیل بن بیضا کے، کیونکہ میں نے انھیں اسلام کا ذکر کرتے سنا ہے۔آپ خاموش رہے تو مجھے اس قدر خوف آیا، گویا اس روزمجھ پر آسمان سے سنگ باری ہو جائے گی۔آپ نے میری بات’’ سوائے سہیل بن بیضا کے‘‘دہرائی تو مجھے سکون ہوا (ترمذی، رقم ۳۰۸۴۔ احمد، رقم ۳۶۳۲۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۳۰۴)۔
اس حدیث کے راوی سے تسامح ہوا کہ سہل بن بیضا کے بجاے ان کے بھائی سہیل کا نام بیان کر دیا۔ دونوں بھائی قدیم الاسلام ہیں، تاہم سہیل بن بیضا کا اسلام عیاں تھا ، اسی لیے انھیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی، وہ سرےۂ عبداﷲ بن جحش میں شرکت کر چکے تھے، غزوۂ بدر میں جیش اسلامی میں ان کی شمولیت بھی نمایاں تھی ۔شرکاے بدر میں ان کانام صراحت سے مذکور ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انھیں دشمن مشرک فوج کاقیدی سمجھ لیا جاتا۔ان کے برعکس حضرت سہل بن بیضا نے ابتداے اسلام میں ایمان لانے کے باوجود اپنا ایمان چھپائے رکھا۔ قریش نے بنو ہاشم کے مقاطعہ کی دستاویز بیت اﷲ میں لٹکاکر انھیں شعب ابوطالب میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تو اسے پھاڑنے میں حضرت سہل نے اہم کردارادا کیا۔ اس کے باوصف قریش مکہ انھیں اپنا ساتھی سمجھتے رہے، حتیٰ کہ بدر کی طرف جانے والی فوج میں بھی دھر لیا۔ معرکۂ فرقان میں اسیر ہوئے تو حضرت عبداﷲ بن مسعود نے ان کے اسلام کی گواہی دی۔انھوں نے بتایاکہ میں نے حضرت سہل کو مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مسند احمد کی اسی مضمون پر مشتمل روایت ۳۶۳۴ میں حضرت سہیل کے بجاے حضرت سہل کا نام مذکور ہوا ہے۔ حضرت سہیل کے تیسرے بھائی حضرت صفوان بن بیضا معرکۂ فرقان میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ شریک ہوئے۔ حضرت سہیل جنگ احد،جنگ خندق اور باقی تمام غزوات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔
حضرت انس بتاتے ہیں: ’’میں حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت ابودجانہ (سماک بن خرشہ) اور حضرت سہیل بن بیضا سے چھوٹا تھا اور انھیں نیم پخت گدر کھجور وں اور چھوہاروں سے بنی ہوئی شراب پلایا کرتا تھا۔ جب حرمت خمر کا حکم نازل ہوا تو میں نے یہ سب بہا دی، کیونکہ ہم اسے شراب ہی سمجھا کرتے تھے‘‘ (بخاری، رقم ۵۶۰۰۔ مسلم، رقم ۵۱۸۰)۔ نبیذ حرام نہیں اگر گدر کھجور، چھوہارے یاانگور سے الگ الگ بنائی جائے، کیونکہ اس سے نشہ نہیں ہوتا، لیکن جب ان میں سے دو اجناس کھجور اور چھوہارا یا کھجور اور انگورکو ملاکر شراب بنا لی جائے تو نشہ آور ہونے کی وجہ سے قطعاً حرام ہو جاتی ہے، اسی لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں جمع کرنے سے منع فرمایا (بخاری، رقم ۵۶۰۲۔ مسلم، رقم ۵۱۸۱)۔ حضرت انس ہی کی روایت ہے: ’’میں کل گیارہ صحابہ کا ساقی تھا‘‘ (مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۶۹۷۰)۔ تین کا ذکر بخاری و مسلم کی اس روایت میں آگیا ہے، مزید دو حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت ابی بن کعب بخاری کی روایت ۵۵۸۴ اور مسند احمد کی روایت ۱۲۸۰۴ میں مذکور ہیں۔ مسلم کی روایات ۵۱۷۴ اور ۵۱۷۹ میں حضرت ابوایوب انصاری اور حضرت معاذ بن جبل کے نام آئے۔ ابن حجر نے سیدنا ابوبکر و عمر کی بادہ نوشی کی تردید کرنے کے بعد انھیں بھی ان گیارہ میں شمار کر لیا، ایک غیر معروف صحابی ابوبکر بن شغوب کوشامل کیا تو بھی عدد دس تک پہنچا اور گیارہ کی گنتی مکمل نہ ہو سکی۔
غزوۂ تبوک میں حضرت سہیل بن بیضا نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی اونٹ پر سفر کیا ۔آپ نے ’’یاسہیل‘‘ کہہ کر دو یا تین مرتبہ انھیں پکارا تو انھوں نے ’’لبیک‘‘ کہہ کر ہر بارجواب دیا۔صحابہ نے آپ کا کلام سنا تو یہ جان کر رک گئے کہ آپ ان کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔اگلوں نے سواریاں بٹھا لیں اورپچھلے آن ملے ۔سب جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’جس نے گواہی دی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، تو اﷲ اسے دوزخ پر حرام کر دے گا اور جنت اس کے لیے لازم کر دے گا‘‘ (احمد، رقم ۱۵۶۷۸۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۶۴۶)۔ یہ آخری سفر تھا جو حضرت سہیل نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔تبوک سے واپسی پر ان کی زندگی کا سفر بھی تمام ہو گیا۔
حضرت سہیل بن بیضا نے ۹ھ میں چالیس برس کی عمرمیں وفات پائی۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ان کا جنازہ پڑھایا اور نماز کے بعد دعا نہ فرمائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے وفات پائی تو سیدہ عائشہ نے حکم دیا کہ ان کی میت مسجد نبوی میں ان کے پاس لائی جائے تاکہ وہ اور دوسری امہات نماز جنازہ ادا کر سکیں ۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ جنازوں کو مسجد میں نہ لانا چاہیے تو جواب دیا: لوگ کتنی جلد بھول جاتے ہیں اور ان معاملات میں عیب جوئی کرنے لگتے ہیں جن کا انھیں علم ہی نہیں ہوتا۔ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن بیضا (اور ان کے بھائی) کی نماز جنازہ اندرون مسجدمیں ادا نہ فرمائی تھی (مسلم، رقم ۲۲۱۳۔ احمد، رقم ۲۴۳۸۰)؟ حضرت سہیل کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔
حضرت سعید بن صلت نے غزوۂ تبوک والی روایت حضرت سہیل بن بیضا سے نقل کی ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ روایت مرسلہ ہے، اس لیے کہ سعید کا سہیل سے سماع ثابت نہیں (التاریخ الکبیر)۔ اس کے علاوہ حضرت سہیل بن بیضا سے کوئی روایت مروی نہیں۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبوےۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، فتح الباری (ابن حجر)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)۔

_____

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2015
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Nov 15, 2018
2341 View