حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ عنہ (۱) - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ عنہ (۱)

 حضرت شرحبیل کے والد کا نام عبداﷲ،دادا کا مطاع بن عمروتھا۔ وہ اپنی والدہ حسنہ کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں جو بحرین کے قصبہ عدول(یا عدولی) سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت زبیر کی روایت کے مطابق حسنہ ان کی حقیقی ماں نہ تھیں،بلکہ انھوں نے حضرت شرحبیل کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ حضرت شرحبیل کا شجرۂ نسب کندۃ (ثور)بن عفیرسے جا ملتا ہ اس لیے انھیں کندی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے جد غوث بن مر کے بھائی تمیم بن مر کی نسبت سے تمیمی بھی کہلاتے ہیں۔ حضرت شرحبیل بنو زہرہ کے حلیف تھے، لیکن سوتیلے والد سفیان بن معمرکی نسبت سے ان کا ذکر بنو جمح میں بھی ہوتا ہے۔ ابو عبداﷲ ان کی کنیت تھی، تاہم ابوعبدالرحمن اور ابووائلۃ کی کنیتوں سے بھی پکارے جاتے۔

حضرت شرحبیل کی والدہ بنوجمح کے سپوت معمر بن حبیب کی باندی تھیں۔یہ وہی معمر ہیں جنھوں نے عام الفیل کے بیس برس بعدلڑی جانے والی چوتھی جنگ فجار(یا فجار اکبر) میں داد شجاعت دیتے ہوئے جان دے دی۔اس جنگ کی ابتدااس وقت ہوئی جب براض بن قیس کنانی نے شاہ حیرہ نعمان بن منذر کا بازار عکاظ جانے والا قافلہ لوٹا، قافلے کے نگران عروہ بن عتبہ کو قتل کیا،اسد بن جوین اور مساور بن مالک نے عروہ کا دفاع کرنا چاہا تو ان کوبھی مار دیا۔ عروہ کے قبیلے بنوقیس نے قریش سے خون بہا طلب کیا، کیونکہ قریش اور بنوضمرہ، دونوں کنانہ بن خزیمہ کی اولاد تھے۔اس پر ان قبیلوں اور ان کے حامیوں میں شدید جنگ چھڑ گئی، اسے حرب فجار (گناہ کی جنگ) کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ان محترم مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتال زمانۂ جاہلیت میں بھی حرام سمجھا جاتا تھا۔قریش اور بنوکنانہ کے بقیہ قبائل کی قیادت ابو سفیان کے والد حرب بن امیہ نے کی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر بہ اختلاف روایات پندرہ یا بیس برس تھی۔ آپ دشمن کی طرف سے آنے والے تیر اٹھا کرجنگ میں شریک اپنے چچاؤں کو پکڑاتے جاتے تھے۔معمر بن حبیب نے اپنے قبیلے بنو جمح کی نمایندگی کی۔

پہلے شوہر عبداﷲ کی وفات کے بعد معمربن حبیب نے حسنہ کا بیاہ اپنے منہ بولے بیٹے،انصاری قبیلہ بنوزریق کے سفیان سے کیا،جو جاہلیت کے رواج کے مطابق سفیان بن معمرجمحی کہلاتے تھے۔ سفیان سے حسنہ کے بیٹے جنادہ اور جابر ہوئے،یہ حضرت شرحبیل کے ماں جائے سوتیلے بھائی تھے۔ان دونوں نے اسلام قبول کیا اورحبشہ کو ہجر ت کی۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ کے قبول اسلام کی تفصیل نہیں ملتی،ان کا نام ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کی اس فہرست میں بھی شامل نہیں جو ابن اسحاق نے مرتب کی۔ تاہم ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مومنین اولین میں شامل تھے۔

بعثت نبوی کے تیسرے سال نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے‘‘ (الشعراء ۲۶: ۲۱۴) اور ’’(اے نبی)، آپ کو جو حکم نبوت ملا ہے، اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے (الحجر۱۵: ۹۴)۔ دعوت حق عام ہونے لگی تو مشرکوں کو اپنے بتوں کی خدائی خطرے میں نظر آنے لگی۔ انھوں نے نو مسلم کمزوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔اگلے دوسال میںیہ سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تونبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم اﷲکی سرزمین میں بکھر جاؤ۔‘‘صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: ’’یا رسول اﷲ، ہم کہاں جائیں؟‘‘ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ’’وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے، (وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اﷲ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔‘‘ چنانچہ رجب ۵؍ نبوی (۶۱۵ء) میں سب سے پہلے سولہ اہل ایمان نصف دینار کرایہ پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے۔

شوال ۵ ؍ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کرنے کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو حضرت عبداﷲ بن مسعود کے علاوہ تمام اصحاب حبشہ لوٹ گئے۔ انھیں بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اجازت لے کر جلد ہی حبشہ واپس جانا پڑا۔ ابن سعدکا بیان مختلف ہے،کہتے ہیں کہ یہ مہاجرین مکہ میں داخل ہو گئے اور جب ان کی قوم کی طرف سے اذیت رسانی کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہواتو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں بار دگر حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔ان کے ساتھ کئی دیگر مسلمان بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ حضرت عثمان نے کہا: یارسول اﷲ، آپ تو ہمارے ساتھ نہیں چل رہے؟ فرمایا: تمھاری دونوں ہجرتیں اﷲ کی طرف اور میری خاطر ہیں۔اس ہجرت ثانیہ میں اڑتیس مرد ، گیارہ عورتیں اور سات غیر قریشی افراد شامل ہوئے۔ سفیان بن معمر ان میں سے ایک تھے۔ان کی اہلیہ حسنہ ،ان کے بیٹے جابر ، جنادہ اور حسنہ کے بیٹے حضرت شرحبیل جو ان کے پہلے خاوند عبداﷲ سے پیدا ہوئے، اسی قافلے میں شامل تھے۔اگرچہ یہ کہیں تذکرہ نہیں ہوا کہ حضرت شرحبیل بن حسنہ پر مظالم ڈھائے گئے، تاہم ان کا حبشہ ہجرت کر نا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ دیگر مستضعفین کی طرح انھیں بھی آزمایشوں سے گزرنا پڑا ہو گایا ہو سکتا ہے کہ مکہ کے عمومی حالات نے انھیں ہجرت پر مجبور کر دیا ہو۔

یہ روایت موسیٰ بن عقبہ کی تھی، جبکہ ابن اسحاق اوران کے تتبع میں ابن ہشام اور ابن کثیرنے ان دونوں ہجرتوں کے مابین ایک تراسی رکنی قافلے کی خبر دی ہے جو جعفر بن ابوطالب کی قیادت میں حبشہ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سفیان بن معمرکا کنبہ اسی قافلے میں شامل تھا۔

۷ ھ میں عمرو بن امیہ ضمری حبشہ آئے تو وہاں موجود ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ (رملہ )کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے شادی کا پیغام دیا۔وہ پہلے عبیداﷲ بن جحش سے بیاہی ہوئی تھیں اور انھی کے ساتھ حبشہ آئی تھیں۔ عبیداﷲ نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تو ان میں علیحدگی ہو گئی ، بعد میں عبیداﷲکا انتقال ہو گیا ۔ نجاشی نے آپ کے وکیل کی حیثیت سے اپنی باندی ابرہہ کے ذریعے سے یہ پیغام ان تک پہنچایا۔ حضرت ام حبیبہ نے حضرت خالد بن سعید بن عاص کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ حضرت جعفر بن ابو طالب اور دیگر مسلمان رسم نکاح میں شریک ہوئے ۔نجاشی نے خطبہ پڑھا ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزار درہم مہر ادا کیا اور اپنی طرف سے تحائف دیے۔ حضرت خالد نے جوابی خطبہ دیا، ایجاب و قبول کے بعد نجاشی نے حاضرین کی کھانے سے تواضع کی اوردلہن کو حضرت شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ آپ کی طرف روانہ کر دیا (ابوداؤد، رقم ۲۱۰۷۔ نسائی، رقم ۳۳۵۲)۔ سیدہ ام حبیبہ نے وضاحت کی کہ تما م مہر نجاشی نے اپنے پاس سے دیا،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی رقم نہ بھیجی تھی (احمد، رقم ۲۷۲۸۱) ۔

حضرت شرحبیل بن حسنہ ہجرت حبشہ کے بعد مکہ واپس نہ آئے،انھوں نے بدرو احد کی جنگوں میں بھی شرکت نہ کی۔ حضرت ابن ہشام کا کہنا ہے کہ وہ ان اصحاب میں بھی شامل نہ تھے جو حضرت عمرو بن امیہ کے ساتھ دو کشتیوں میں سوار ہو کر آئے۔ وہ سیدہ ام حبیبہ کے نکاح میں شریک تھے اور انھیں لے کر مدینہ آئے، اس لیے مدینہ کی طرف ان کی ہجرت ثانیہ ۷ھ ہی میں الگ کشتی میں ہوئی ہوگی۔ مدینہ میں ان کا قیام قبیلۂ بنوزریق میں ہوا۔سفیان بن معمر اور ان کے دونوں بیٹے جنادہ اور جابر عہد فاروقی میں فوت ہوئے۔ان کی کوئی اولاد نہ تھی، اس لیے حضرت شرحبیل بنوزہرہ کے حلیف بن گئے اور ان کے ہاں قیام کر لیا۔اس پر بنو زریق کے ابوسعید بن معلی خلیفۂ دوم سیدنا عمر کے سامنے مقدمہ لے گئے کہ یہ ہمارے حلیف تھے ،دوسرے قبیلے کے ہاں کیوں کر چلے گئے۔ حضرت شرحبیل نے جواب دیا: میں ان کا حلیف نہ تھا، میں تو اپنے سوتیلے بھائیوں کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا۔ان کا انتقال ہو گیا تو میں جس سے چاہوں ،محالفت کر سکتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا: ابو سعید، تم کوئی بینہ نہیں پیش کر سکے، اس لیے اس معاملے میں شرحبیل خود مختار ہیں۔

حضرت شرحبیل بن حسنہ نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کئی غزوات میں حصہ لیا،ان کا شمار کاتبین وحی میں بھی ہوتا ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت شرحبیل کو سفیر بنا کر مصر بھیجا۔آپ کی وفات کے وقت حضرت شرحبیل مصر ہی میں تھے۔

۱۱ھ: آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ارتداد کا فتنہ اٹھا۔خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق نے مرتدین کو خطوط لکھے کہ تم میں سے جو لوگ جہالت کی بنا پر دین سے پھر گئے ہیں، اپنی معاندانہ سر گرمیوں سے باز آگئے تو ان کی جان بخشی کر دی جائے گی، لیکن جو فسادپھیلانے سے باز نہ آئے، ان سے جنگ کی جائے گی۔ اس وقت جیش اسامہ اپنے مشن میں کامیاب ہو کر لوٹا تھا۔ انھوں نے اسے آرام کرنے کا موقع دیا،پھر سرکشی پر قائم رہنے والے مرتدوں کی سرکوبی کے لیے مدینہ سے نکلے ۔ذو القصہ کے مقام پر پہنچے تھے کہ سیدنا علی اور دوسرے صحابہ نے اصرار کیا کہ آپ خود مدینہ میں رہ کر اسلا می حکومت استوار کریں اور سرکشوں کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاں سے فوج روانہ کریں ۔ان کا مشورہ مان کر سیدنا ابوبکر نے لشکر کو گیارہ دستوں میں تقسیم کیا اورہر دستے کوالگ پرچم دے کر الگ ا میر مقرر کیا۔ انھوں نے بنو اسد کے مدعئ نبوت طلیحہ بن خویلد اور بطاح کے مالک بن نویرہ کی طرف حضرت خالد بن ولید کو،بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف حضرت عکرمہ بن ابو جہل کو،اسود عنسی ، قیس بن مکشوح اور کندہ کی طرف حضرت مہاجر بن ابو امیہ کو ،یمن اور شام کی سرحدوں کی طرف حضرت خالد بن سعید کو، بنوقضاعہ و بنوودیعہ کی طرف حضرت عمرو بن عاص کو، عمان(دبا) کے لقیط بن مالک کی طرف حضرت حذیفہ بن محصن کو، مہرہ کی طرف حضرت عرفجہ بن ہرثمہ کو،بنو سلیم اور بنو ہوازن کی طرف حضرت طرفہ بن حاجب کو، تہامہ کی طرف حضرت سوید بن مقرن کو، بحرین کے حطم بن ضبیعہ اور قیس بن ثعلبہ کی طرف حضرت علاء بن حضرمی کو بھیجا۔

سیدنا ابوبکر نے ان دستوں کو ہدایت کی کہ راستے میں ملنے والے مسلمانوں کو لشکر میں شامل کرتے جائیں ۔خلیفۂ اول نے حضرت عکرمہ کی روانگی کے بعد حضرت شرجیل بن حسنہ کو ان کی معاونت کے لیے یمامہ اور بنوقضاعہ کے خلاف برسرپیکار حضرت عمرو بن عاص کی مددکے لیے حضرموت روانہ کیا۔

بنو یربوع کی عورت سجاح بھی مدعیان نبوت کی فہرست میں شامل ہوئی ، چار ہزار کا لشکر جمع کر کے یمامہ کی طرف چلی،اس کا ارادہ مدینہ پر حملہ کرنے کا تھا۔اس کی تیاریاں دیکھ کر مسیلمہ گھبرایا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت شرحبیل یمامہ پہنچ ر ہے ہیں۔اگر سجاح بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئی تو دونوں مسلمان جرنیل اس پر غالب آ جائیں گے اور بنوحنیفہ کے ثمامہ بن اثال اور نواحی قبائل کو بھی حملہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس نے سجاح کوتحائف بھیج کر اپنے پاس بلایا اور آدھی پیغمبری دے کر اس سے نکاح کر لیا۔

حضرت عکرمہ بن ابوجہل کادستہ پہلے یمامہ پہنچ گیا۔انھوں نے کمک کا انتظار نہ کیا اورمسیلمہ پر حملہ کرنے میں جلد بازی کی،جب ہزیمت اٹھائی تو سیدنا ابوبکر کو اطلاع بھیجی۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ یمامہ کے قریب پہنچ چکے تھے، یہ خبر سن کرو ہیں رک گئے۔ سیدنا ابوبکر حضرت عکرمہ سے سخت ناراض ہوئے اوران کو حذیفہ و عرفجہ والی فوج میں شامل ہو کراہل عمان ومہرہ سے لڑنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے حضرت شرحبیل کو وہیں ٹھہر کر حضرت خالد بن ولید کی آمد کا انتظار کرنے کو کہااور مزید ہدایت کی کہ مسیلمہ کی سرکوبی سے فارغ ہوکر بنوقضاعہ کے خلاف حضرت عمرو بن عاص کی مہم میں شامل ہو جانا۔ طبری کی روایت ہے کہ حضرت خالد کی آمد سے پہلے حضرت شرحبیل نے بھی ازخود مسیلمہ پر حملہ کیا، لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

[باقی]

________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2016
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Nov 13, 2019
2977 View