حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی ﷲ عنہ

 

حضرت سالم کے والد معقل( عبید:ابن اثیر)تخت جمشید کے قریب آباد قدیم ایرانی شہر اصطخر (شاذ روایت: کرمد) کے رہنے والے تھے۔ حضرت سالم ابوحذیفہ بن عتبہ کے حلیف اور لے پالک تھے، اس لیے عرب کی روایت کے مطابق انھی سے منسوب کیے جاتے تھے۔امام بخاری کہتے ہیں کہ وہ انصار اوس کی ایک خاتون ثبیتہ بنت یعار (لیلیٰ: ابن حبان،فاطمہ: ابن شاہین،سلمیٰ:امام بخاری)کے آزاد کردہ تھے۔ ابن سعدکہتے ہیں: ثبیتہ بنت یعار ابوحذیفہ کی بیوی تھیں،انھوں نے نسبت موالات قائم کیے بغیر حضرت سالم کوآزاد کیا اور کہا: تو جس کا چاہتا ہے، حلیف بن جا ۔ تب ابوحذیفہ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور اپنی بھانجی ہند(فاطمہ:موطا امام مالک،ابن حجر) بنت ولید بن عتبہ سے ان کی شادی کر دی (بخاری، رقم ۵۰۸۸)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے حکم نازل کیا: ’اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ‘، ’’لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کے نام سے پکارو، یہی اﷲ کے ہاں زیادہ قرین انصاف ہے۔اور اگر تمھیں ان کے آبا کا علم ہی نہ ہو تو تمھارے دینی بھائی اور رفقا ہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۵) تو تمام متبنیٰ اپنے باپوں کو لوٹا دیے گئے اور جس کے باپ کا علم نہ تھا، اسے اپنے مولیٰ (آزاد کرنے والے)کو دے دیا گیا۔ تب حضرت سالم ابن ابوحذیفہ کے بجاے حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ابوحذیفہ سے موالات رکھنے کی بناپر انھیں مہاجر اوراوس کی شاخ بنو عبید سے تعلق رکھنے والی خاتون ثبیتہ سے آزادی حاصل کرنے کی وجہ سے انصاری شمار کیا جاتا ہے۔ ابن سعد نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت سالم کا نسب معلوم نہ تھا، اس لیے انھیں ’’سالم، صالحین میں سے ایک‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ابو عبد اﷲ حضرت سالم کی کنیت تھی۔
حضرت سالم ان جلیل القدر اصحاب رسول میں سے ایک تھے جنھیں اﷲ تعالیٰ نے ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کے نام سے پکارا ہے۔نفوس قدسیہ کی اس فہرست میں ان کا شمار باونواں ہے۔
اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ‘، ’’وہ اہل ایمان جنھیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا محض اس وجہ سے کہ انھوں نے کہا کہ اﷲ ہی ہمارا رب ہے‘‘ (الحج۲۲: ۴۰)، مکہ کے اہل ایمان نے بارہ برس کی ابتلاؤں سے بھرپور زندگی گزارلی تو مدینہ کے السابقون الاولون نصرت اسلام کے لیے آگے بڑھے۔ تب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن دے دیا۔ حضرت سالم آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہجرت فرمانے سے پہلے ہی مدینہ منتقل ہو گئے۔ غالب امکان ہے کہ وہ اور ان کے آقا ابوحذیفہ بن عتبہ ان بیس اصحاب میں شامل تھے جنھوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر ہجرت کیا۔ یہ دونوں حضرت سلمہ کے مہمان ہوئے۔ حضرت سالم کو سب سے زیادہ قرآن مجید حفظ تھااور اس کی قراء ت بھی خوبی سے کرتے تھے،اس لیے مکہ سے مہاجرین کی امامت کرتے مدینہ آئے، قبا کے قریب عصبہ کے مقام پر ٹھہرے اور یہاں بھی نوواردان مدینہ کو نماز پڑھاتے رہے۔تب تک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ تشریف نہ لائے تھے۔ حضرت عمر، حضرت ابوسلمہ، حضرت زید اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم ان کے مقتدیوں میں شامل ہوتے (بخاری، رقم ۶۹۲، ۷۱۷۵)۔ حضرت ابوبکرقبا پہنچے تووہ بھی حضرت سالم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے۔
مدینہ تشریف لانے کے بعد آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ حضرت معاذ بن ماعص کے مہا جر بھائی ٹھہرے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح سے ان کی مواخات والی روایت منقطع ہے۔ مواخات کے نئے بندھن میں بندھنے وا لے پینتالیس مہاجرین کو پینتالیس انصار کے ساتھ بھائی چارے اور وراثت کاحق حاصل ہوا۔ جنگ بدر کے موقع پر حکم ربانی ’وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ‘، ’’رحم کا رشتہ رکھنے والے اﷲ کے حکم میں ایک دوسرے پر زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (الانفال ۸: ۷۵) نازل ہوا تو میراث میں مواخات منسوخ ہو گئی۔
حضرت سالم بدر،احد،خندق اور تمام غزوات میں شریک رہے۔ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے کہ حضرت ابوحذیفہ کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: سالم مردوں کی طرح عاقل و بالغ ہو گیا ہے ۔وہ میرے پاس (بے تکلف) آتا جاتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ابوحذیفہ اسے برا سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے دودھ پلادو ، وہ تمھارے لیے محرم بن جائے گا (پھر اس پرمحرموں کے احکام لاگو ہو جائیں گے) (مسلم، رقم ۳۵۹۱)۔ حضرت سہلہ نے کہا: میں اسے کیسے دودھ پلاؤں، وہ تو (ڈاڑھی مونچھ والا) بڑا آدمی ہے؟ آپ مسکرائے اور فرمایا: میں جانتا ہوں کہ وہ(بچہ نہیں) بڑا ہے (مسلم، رقم ۳۵۹۰)۔ دودھ پلائی کے بعد حضرت سہلہ بنت سہیل پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، میں اب ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگوار تاثرات نہیں دیکھتی (نسائی، رقم ۳۳۲۲)۔ سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ سے مشترکہ روایت ہے کہ حضرت سہلہ نے کہا: یا رسول اﷲ، ہم تو سالم کو بچہ ہی سمجھتے رہے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی مکان (تنگ مکان: احمد، رقم ۲۵۷۸۹) میں رہتا ہے اور مجھے کام کاج کے مختصر کپڑوں میں دیکھتا رہتا ہے۔ اﷲ نے ایسے ملازمین کے بارے میں جو حکم نازل کر رکھا ہے، اس کی روشنی میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اسے دودھ پلا دو۔ چنانچہ حضرت سہلہ نے حضرت سالم کو پانچ بار (دس بار: احمد، رقم ۲۶۱۹۳) دودھ پلایا تووہ ان کے رضاعی بیٹے کے مانند ہو گیا۔ سیدہ عائشہ اپنی بہن ام کلثوم بنت ابوبکر، بھتیجیوں اور بھانجیوں کو گھرمیں آنے جانے والے ملازموں کے باب میں اسی طریقے پرعمل کرنے کا مشورہ دیتی تھیں، تاہم سیدہ ام سلمہ اور باقی ازواج النبی نے پسند نہ کیا کہ گود میں بٹھائے بغیر اس طرح کی دودھ پلائی کے ذریعے سے وہ کسی شخص کو اپنے گھر میں داخل کر لیں۔ وہ سیدہ عائشہ سے کہتی تھیں: ہمیں نہیں معلوم، شاید یہ ایک رخصت ہو جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محض سالم کے لیے جائز قرار دی ہو (مسلم، رقم ۳۵۹۵۔ ابو داؤد، رقم ۲۰۶۱۔ موطا امام مالک، رقم ۱۱۳۴) ۔
غزوۂ احد میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہوا،آپ کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا، جو خود آپ نے پہن رکھا تھا، بدبخت ابن قمۂ کے وار سے اس کے کڑے آپ کے رخسارمیں دھنس گئے اور پیشانی مبارک پربھی زخم آیا۔ آپ اس گڑھے میں گر گئے جو ایک دوسرے مشرک ابوعامر نے کھود رکھا تھا اوربے ہوش ہو گئے۔ قتادہ کی روایت ہے کہ ایسے میں حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ آئے،آپ کو بٹھایا اور روے مبارک سے خون پونچھا۔ آپ ہوش میں آئے تو فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا،حالاں کہ وہ اسے اﷲ کی طرف بلارہا ہے (جامع البیان، طبری ۴/ ۸۶)۔
فتح مکہ کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو قبیلۂ بنو جذیمہ کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا۔ بنو جزیمہ کے لوگوں نے ہتھیار اٹھائے تو حضرت خالد نے کہا: لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ، اب اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شخص جحدم نے کہا: میں ہر گز ہتھیار نہ ڈالوں گا۔ یہ خالد ہے، ہتھیار پھینکنے کے بعد قید کرلیتا ہے اور پھر گردن اڑا دیتا ہے۔قبیلہ کے لوگوں نے اس سے اتفاق نہ کیا ، ڈانٹ ڈپٹ کر اس سے اسلحہ چھینااورخود بھی ہتھیار ڈال دیے۔اس کے بعد حضرت خالدنے واقعی قتل و غارت شروع کر دی اورمارنے کے علاوہ کئی لوگوں کو مشکیں کس کرقید کر لیا۔ اگلی صبح انھوں نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کردے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمراور حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ نے اپنے اپنے قیدی کو آزاد کر دیا اور کہا: ہم اپنے قیدیوں کو قتل نہ کریں گے۔پھر یہ سب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اورسارا معاملہ بتایا۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا کسی نے ان کو منع بھی کیاتھا؟لوگوں نے بتایا: ہاں، سنہری(سفید) رنگ کے ایک میانہ قد شخص نے اور ایک لمبے سرخ رو آدمی نے حضرت خالد کو روکا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: یا رسول اﷲ، میں ان دونوں کو جانتا ہوں۔ ایک میرا بیٹا عبداﷲ ہے اور دوسرے سالم مولیٰ ابوحذیفہ ہیں۔ حضرت خالد نے ایک کو ڈانٹ پلا کر بٹھا دیا اور دوسرے کے ساتھ سخت بحث کی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہاتھ بلند کر کے دو باراظہار براء ت کیا: اے اﷲ، میں خالد کی کارروائی سے بری الذمہ ہوں (بخاری، رقم ۴۳۳۹۔ احمد، رقم ۶۳۸۲)۔ آپ جنگ حنین سے فارغ ہوئے تو حضرت علی کو مال مویشی اور نقدی دے کر فرمایا: جاؤ، ان کا معاملہ دیکھو اور جاہلی رسوم پامال کر دو۔ چنانچہ حضرت علی نے مقتولین کی دیتیں ادا کیں ،ان کا پائی پائی کا نقصان پورا کرنے کے بعدبچا ہوا مال بھی ان کے حوالے کر دیا اور کہا: ’إحتیاطًا لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘۔
۱۱ھ (دسمبر۶۳۲ء) میں جنگ یمامہ ہوئی۔ انصار کا علم ثابت بن قیس اٹھائے ہوئے تھے، جبکہ مہاجرین کاپرچم حضرت زید بن خطاب (عبد اﷲ بن حفص: ابن اثیر) کے پاس تھا۔ حضرت زید کی شہادت کے بعد یہ حضرت سالم کے پاس آ گیا۔ انھوں نے کہا: مجھے نہیں علم،پرچم مجھے کیوں تھمایا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ قرآن کے عالم ہیں۔اسی طرح ثابت قدم رہیں گے، جس طرح آپ کے پیش رو حضرت زید بن خطاب اپنی شہادت تک رہے۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہمیں خدشہ ہے کہ آپ کی جانب سے ہم پر حملہ کر دیا جائے گا ۔ جواب دیا: میں قرآن مجید کا برا حامل ہوں گا اگر میدان جنگ سے بھاگ گیا۔ دوران جنگ میں حضرت سالم کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انھوں نے پرچم بائیں ہاتھ میں تھام لیا۔ وہ بھی کٹ گیا توکٹے ہوئے بازوؤں کی مدد سے گلے سے لگا لیا اور ’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘، ’’محمد تو بس ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں‘‘(اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۴) اور ’وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ‘، ’’اور بہت سے نبی ہیں جن کے ساتھ مل کر خدا ترس علما کے ایک بڑے گروہ نے قتال کیا‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۶) کا ورد کرنے لگے، پھر اسی حالت میں گر کر شہید ہو گئے۔ جان نکلنے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ابوحذیفہ کا کیا حال ہے؟ انھوں نے بتایا: وہ شہید ہو گئے۔ پھر ایک اور صحابی کے بارے میں پوچھا: ان کی بھی شہادت ہو چکی تھی۔ حضرت سالم نے کہا: مجھے ان دونوں کے درمیان میں لٹا دو۔ایک روایت ہے کہ مسیلمہ اور بنو حنیفہ کے خلاف جنگوں میں مسلمانوں کو تین مرتبہ شکست ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس اور حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہ نے کہا: ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اس طرح نہ لڑا کرتے تھے۔انھوں نے اپنے لیے قبر کھودی اور مہاجرین کا علم لے کر اس میں گھس گئے، پھر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔اختتام جنگ پر حضرت سالم کا سر ابوحذیفہ کے پاؤں کے پاس اور ابوحذیفہ کا سر ان کے پاؤں کے پاس تھا (مستدرک حاکم، رقم ۵۰۰۰)۔ یوں ان کی وصیت پوری ہوئی۔
حضرت سالم کی شہادت کے بعد خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے ان کا ترکہ حضرت ابوحذیفہ کی بیوہ حضرت ثبیتہ کے پاس بھیجا تو انھوں نے کہا: میں نے حضرت سالم کو موالات کی شرط عائد کیے بغیراﷲ کی خاطرآزاد کیا تھا۔ حضرت عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے حضرت ثبیتہ کو ترکہ لینے کی باردگرپیش کش کی۔وہ نہ مانیں توانھوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے حضرت سالم کی میراث بیچی تو دوسو درہم حاصل ہوئے،یہ رقم انھوں نے ان کی رضاعی والدہ کو سونپ دی اور کہا: اسے استعمال کر لیں۔ حضرت سعید بن مسیب سے مروی روایت بالکل مختلف ہے، وہ کہتے ہیں: حضرت سالم نے وصیت کی کہ ان کا ایک تہائی مال اﷲ کی راہ میں دے دیا جائے،ایک تہائی سے غلام آزاد کر دیے جائیں اور ایک تہائی ان سے نسبت موالات رکھنے والوں کو سونپ دیا جائے۔
۲۳ھ میں بد بخت ابولؤلؤہ فیروز نے خلیفۂ دوم حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ کیا۔وہ شدید زخمی تھے اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔لوگوں نے کہا: امیرالمومنین، آپ اپنا جانشین مقرر کر جاتے تو اچھا ہوتا۔ حضرت ابوبکر نے ایسا کیا اور لوگوں نے ان پر اعتماد کیا۔ جواب دیا: میں کسے خلیفہ بناؤں؟اگر ابو عبیدہ بن جراح زندہ ہوتے تو انھیں خلافت سونپ دیتااور اگر میرا رب پوچھتا تو کہتا: میں نے تیرے نبی کو یہ فرماتے سنا تھا کہ ’’یہ اس امت کے امین ہیں۔‘‘ اگر حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ حیات ہوتے تو انھیں ہی اپنا جانشین بنا جاتا۔ میرا رب پوچھتا تو کہتا: میں نے تیرے نبی کو یہ ارشاد فرماتے سناتھا کہ ’’سالم اﷲ کے ساتھ دل کی گہرائی سے،شدید محبت رکھتے ہیں۔‘‘(حلیۃ الاولیاء، رقم ۵۷۴)۔ ذہبی کہتے ہیں: ایسا تب ہوتا اگر حضرت عمرکے نزدیک غیر قریش کی امامت درست ہوتی۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مولیٰ اسی قوم میں شمار ہوتا ہے جس سے اس کا رشتۂ موالات ہو۔اس لحاظ سے حضرت سالم قریشی ہی سمجھے جائیں گے، کیونکہ وہ قریش کا حلیف ہونے کی عصبیت رکھتے تھے ۔ وہ بار خلافت اٹھانے کی پوری شرائط رکھتے تھے، اگرچہ صریح النسب قریشی نہ تھے، پھر بھی قریش کی قبائلی و سیاسی عصبیت ان کوحاصل تھی (تاریخ ابن خلدون، مقدمہ ۲۰۵) بیسویں صدی کے شیعہ عالم علی اصغر رضوی کا کہنا ہے کہ امت کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت حضرت سالم کا انتقال ہو چکاتھا۔اگر حضرت عمر کو حضرت سالم کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا واقعی موقع ملا ہوتا تو وہ بہترین خلیفہ ثابت ہوتے۔
حضرت سالم سے دو احادیث مروی ہیں: ایک بغوی نے اور دوسری ابن شاہین نے نقل کی ہے، لیکن دونوں منقطع السند ہیں۔ مالک بن دینار کسی انصاری بزرگ کے واسطے سے حضرت سالم کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت کچھ ایسے لوگ پیش کیے جائیں گے جن کے پاس تہامہ کے پہاڑوں جتنا نیکیوں کا انبار ہو گا۔پیشی کے بعد اﷲ ان کے اعمال کی دھول اڑا دے گا اور انھیں دوزخ میں جھونک دے گا۔ حضرت سالم نے پوچھا: یارسول اﷲ،میر ے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، ان لوگوں کی نشانیاں بتائیے تاکہ ہم ان کو پہچان سکیں۔اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے،مجھے اندیشہ ہے کہ میں ان میں شامل نہ ہو جاؤں، فرمایا: سالم،یہ لوگ نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے تھے، لیکن جب حرام ان کے سامنے آتا تھا ،اس پر پل پڑتے تھے، اس لیے اﷲ نے ان کے اعمال کو بے ثمر کر دیا ہے۔(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور۶/ ۲۴۴)
حضرت سالم قرآن کریم کے علوم سے بہت شغف رکھتے تھے۔ان علوم میں ان کی مہارت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ثابت ہوتی ہے جو آپ نے صحابۂ کرام کو تلقین کیا: قرآن چار آدمیوں سے سیکھو: عبداﷲ بن مسعودسے ، ابوحذیفہ کے حلیف سالم سے ، ابی بن کعب سے اور معاذ بن جبل سے (بخاری، رقم ۳۸۰۶۔ مسلم، رقم ۶۴۲۰)۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک رات میں نے عشا کے بعددیرلگا دی۔آپ کے پاس پہنچی تودریافت فرمایا: تم کہاں تھیں؟میں نے بتایا: آپ کے ایک صحابی کی تلاوت سن رہی تھی، اس جیسی آواز اور اس طرح کی قراء ت میں نے کسی سے نہیں سنی۔ آپ اٹھے (اور چادر اوڑھ کر حجرے سے باہر آئے)، میں بھی آپ کے ساتھ نکلی ۔ قاری کی قراء ت سننے کے بعد آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: یہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ ہیں، اﷲ کاشکر ہے کہ اس نے میری امت میں اس جیسا شخص پیدا کیا (ابن ماجہ، رقم ۱۳۳۸۔ احمد، رقم ۶۸۳۸۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۰۰۱)۔ حضرت زید بن ثابت بتاتے ہیں کہ حضرت سالم کی شہادت کے بعدلوگ کہتے تھے کہ ربع قرآن رخصت ہو گیا۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر نے اپنی شہادت سے پہلے کہا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: سالم (بہ فرض محال) اﷲ سے ڈرنے والے نہ ہوتے تو بھی اس کی نافرمانی نہ کرتے، یعنی وہ اﷲ کی اطاعت خوف سے نہیں، بلکہ تقاضاے محبت سے کرتے تھے (حلیۃ الاولیاء، رقم ۵۷۳)۔ حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک بار اہل مدینہ کو خطرہ پیش آیاتومیں حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ کے پاس آیا۔وہ تلوار کی پیٹی ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر بیٹھے تھے۔ میں نے بھی تلوارسونت لی اور اس کا پرتلا ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو، خطرات میں تمھاری جاے پناہ اﷲ اور اس کے رسول ہونے چاہییں۔ پھر ارشاد کیا: تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، جس طرح ان دو اہل ایمان نے کیا ہے (احمد، رقم ۱۷۷۳۷)۔
ایک بار حضرت عمر بن خطاب نے اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے افراد کو اپنی اپنی خواہشیں بیان کرنے کو کہا۔ایک شخص نے اپنی تمنا یوں بیان کی:میرا دل چاہتا ہے کہ یہ حویلی درہموں سے لبریز ہو اور میں وہ سب راہ خدا میں انفاق کر دوں۔ دوسرے نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہو اور میں سارا سونا اﷲ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ تیسرے کا کہنا تھا: میری آرزو ہے کہ یہ گھرزمرد اور جواہرات سے پر ہو اور میں انھیں اﷲ کی خاطر لٹا دوں۔ حضرت عمر نے پھر کہا: اپنی تمنائیں بیان کرو۔صحابہ نے کہا: امیر المومنین، ہماری سمجھ میں اور کچھ نہیں آتا۔تب حضرت عمر نے کہا: میری خواہش تو یہ ہے کہ اس مکان میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت معاذ بن جبل، حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ اور حضرت حذیفہ بن یمان جیسے لوگ رونق افروز ہوتے اور میں ان سب کو اﷲ کی راہ میں عامل مقرر کر دیتا (مستدرک حاکم، رقم ۵۰۰۵۔ التاریخ الصغیر، امام بخاری ۳۱)۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء(ابو نعیم اصفہانی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)،کتاب العبر و دیوان المبتداء والخبر(ابن خلدون)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia, the free encyclopedia (english & arabic)۔

________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2014
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 22, 2018
4052 View