حضرت اسماء بنت عمیس رضی ﷲ عنہا - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت اسماء بنت عمیس رضی ﷲ عنہا

 حضرت اسماء بنت عمیس کے اجداد کا تعلق بنو خثعم (خثعم بن انمار)سے تھا۔ یمن سے ہجرت کر کے وہ مکہ میں آباد ہو گئے تھے۔ حضرت اسماء مکہ ہی میں پیدا ہوئیں۔ ابن سعد نے انھیں مکہ میں نووارد (یا اجنبی) مسلمان خواتین کے طبقے میں شامل کیا ہے۔معد (معبد :ابن کثیر)بن حارث بن تیم(یا معد بن تیم بن حارث) ان کے دادا تھے۔ ابن اسحق اور ابن عبدالبر نے دوسری روایت کے مطابق ان کے دادا کا نام مالک بن نعمان بن کعب لکھا ہے۔حضرت اسماء کی والدہ ہند(یا خولہ)بنت عوف بنو جرش سے تعلق رکھتی تھیں۔
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی اہلیہ حضرت سلمیٰ بنت عمیس اورحضرت عبداﷲ بن کعب کی اہلیہ حضرت سلامہ بنت عمیس حضرت اسماء کی باپ شریک (علاتی) بہنیں تھیں، جب کہ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث ،ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت ام فضل بنت حارث زوجۂ حضرت عباس بن عبدالمطلب ، حضرت لبابۂ صغریٰ بنت حارث والدۂ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عصما (یا عصمہ )بنت حارث ز وجۂ ابی بن خلف، حضرت عزہ بنت حارث زوجۂ حضرت زیاد بن عبد اﷲ اور ہزیلہ (ام حفید) بنت حارث حضرت اسماء بنت عمیس کی ماں شریک (اخیافی) بہنیں تھیں۔ محمیہ بن جز زبیدی ان کے اخیافی بھائی تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ،حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اور حضرت عباس بن عبدالمطلب کی سالی ہونے کی وجہ سے حضرت اسماء کو بہترین میکے والا سمجھا جاتا ہے۔
ام عبداﷲ ان کی کنیت تھی۔
حضرت اسماء بنت عمیس ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ * ‘ میں سے تھیں،ابن اسحق کی مرتبہ فہرست کے مطابق اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں ان کا نمبر چونتیسواں تھا۔انھوں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے دارارقم میں جانے سے پہلے(۶۱۵ء میں) آپ کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا۔
تب حضرت اسماء کی شادی حضرت جعفر بن ابوطالب سے ہو چکی تھی۔ 
رجب ۵؍ نبوی(۶۱۶ء)میں رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی ایذا رسانیوں کو دیکھ کر صحابہ کو مشورہ دیا کہ حبشہ (Abyssinia, Ethiopia) کو ہجرت کر جائیں۔ فرمایا: وہاں ایسا بادشاہ (King of Axum) حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ سب سے پہلے پندرہ جلیل القدر صحابہ اور ان کے اہل خانہ مدینہ سے حبشہ روانہ ہوئے۔حضرت عثمان بن عفان اور ان کی اہلیہ ،دختر رسول حضرت رقیہ اس قافلے میں شامل تھے۔اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ چند ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی۔ حضرت اسماء بنت عمیس اپنے شوہرکے ساتھ تھیں۔یہ پہلی ہجرت حبشہ کادوسرامرحلہ تھا۔ دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی تھی ۔
قیام حبشہ کے دوران میں حضرت اسماء کے بیٹے حضرت عبداﷲ بن جعفر ،حضرت محمد بن جعفر اورحضرت عون بن جعفر پیدا ہوئے۔
۷ھ (۶۲۸ء): ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو حبشہ میں موجود حضرت جعفر بن ابوطالب اور باقی مہاجرین نے یہ کہہ کر مدینہ جانے کی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے نبی غالب آگئے ہیں اور دشمن مارے جا چکے ہیں۔ نجاشی نے زاد راہ اور سواریاں دے کر ان کو رخصت کیا(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۴۷۸)۔ کچھ مہاجرین ان سے دو سال قبل مدینہ پہنچ چکے تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لانے کے لیے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو بھیج رکھا تھا۔ حضرت اسماء بنت عمیس اپنے شوہر حضرت جعفر طیار اوربیٹے حضرت عبداﷲ بن جعفر کے ساتھ اس قافلے میں شامل تھیں جو دو کشتیوں کے ذریعے سے حبشہ سے حجاز کے ساحل پر اترا اور وہاں سے اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ پہنچا۔ اﷲ کی راہ میںیہ ان کی دوسری ہجرت تھی۔ اس وقت حدیبیہ کا معاہدۂ صلح کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ خیبر میں مصروف تھے ۔ آپ خیبر فتح کرنے کے بعد مدینہ لوٹے تو حضرت جعفر نے آپ کا استقبال کیا۔ آپ نے انھیں اپنے ساتھ چمٹا لیا ،معانقہ کیا، آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ لیا اور فرمایا: میں بہت خوش ہوں، معلوم نہیں ،جعفر کے آنے سے یا خیبر فتح ہونے پر (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۱)۔ حضرت جعفر نے وہ تحائف آپ کو پیش کیے جو نجاشی اور اس کے بھتیجے ذومخمر نے بھیجے تھے۔ ابن خلدون نے حبشہ سے لوٹنے والوں میں حضرت محمد بن جعفر اورحضرت عون بن جعفرکے نام بھی شامل کیے ہیں۔ 
ان دنوں حضرت عمر اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس آئے ۔وہاں حضرت اسماء بنت عمیس بھی موجود تھیں۔ انھوں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ حضرت حفصہ نے بتایا: اسماء ہیں، کہا: کیا حبشیہ اور سمندر پار رہنے والی؟ حضرت اسماء نے ہاں کہاتو حضرت عمر بولے: ہم ہجرت کرنے میں تم سے بازی لے گئے، اس لیے ہمارا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ حق ہے۔حضرت اسماء غصے میں آ گئیں اور جواب دیا: آپ نے سچ کہا:آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے،وہ آپ کے بھوکوں کوکھلاتے رہے ، آپ کے جاہلوں کو دین سکھاتے رہے۔ہم دور افتادگان کا آپ سے کیا مقابلہ؟ہمارا کفار کی سر زمین میں جا پڑنا اﷲ و رسول کی محبت میں تھا۔ بخدا! میں کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکرنہ کردوں۔ہم ہی تھے جنھیں ایذائیں دی گئیں اور جو خوف میں مبتلا رہے۔میں جھوٹ بولوں گی نہ بات کو بڑھا کر بیان کروں گی۔حضرت اسماء شکایت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا:عمر کا مجھ پر تم سے زیادہ حق نہیں۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے تو ایک ہجرت کی، تم کشتی والوں نے دو ہجرتیں کیں،ایک نجاشی کی طرف اور ایک میری طرف۔حضرت اسماء بتاتی ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری اور کشتیوں میں میرے ہم سفر مہاجرین حبشہ میرے پاس جمع ہوتے اور مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں پوچھتے ۔دنیا میں اس سے بڑھ کر انھیں کوئی خوشی ہوئی تھی، نہ ان کے دلوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ کسی شے کی عظمت جاگزیں ہوئی تھی (بخاری، رقم ۴۲۳۰، ۴۲۳۱۔ مسلم، رقم۲۵۰۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۴۰۹۔ دلائل النبوۃ ۴/ ۲۴۵)۔ اسی مضمون کی حامل ایک اور روایت میں اتنا فرق ہے کہ حضرت عمر کا حضرت اسماء سے یہ مکالمہ مدینہ کی کسی گلی میں ہوا (مسند احمد، رقم ۱۹۵۲۴)۔
عمرۂ قضا ادا کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ مکہ سے لوٹنے لگے تو سید الشہدا حضرت حمزہ کی بیٹی عمارہ چچا چچا کہتے ہوئے آپ کے پیچھے لپکی۔ اس اثنا میں حضرت علی نے بچی کا ہاتھ پکڑ کرحضرت فاطمہ کے حوالے کردیا۔ مدینہ پہنچے تو حضرت علی ،حضرت زید اورحضرت جعفر میں جھگڑا ہو گیا۔ حضرت علی نے کہا:میں اس پر زیادہ حق رکھتا ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ان کے بھائی حضرت جعفر نے کہا:یہ میرے بھی چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ حضرت زید بن حارثہ نے کہا:یہ میری بھتیجی ہے (جنگ احد میں حضرت حمزہ نے اپنی وصیت پوری کرنے کی ذمہ داری حضرت زید کو سونپی تھی، اس لیے ان کا خیال تھا کہ وہ اس کی پرورش کا حق رکھتے ہیں)۔ آپ نے یہ فرما کر کہ’’خالہ ماں ہی کی طرح ہوتی ہے‘‘بچی حضرت جعفر اور حضرت اسماء بنت عمیس کے سپردکردی۔حضرت اسماء بنت عمیس بچی کی والدہ حضرت سلمیٰ بنت عمیس کی سگی بہن تھیں۔
۷ ھ میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حارث بن عمیرکی سربراہی میں ایک وفد شاہ بُصری کے نام خط دے کر بھیجا۔ یہ وفد شام کے سرحدی علاقے بلقا کے مقام موتہ سے گزر رہا تھاکہ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمروغسانی نے حضرت حارث کا گلا گھونٹا اور باقی ارکان کو شہید کردیا۔آپ کے کسی ایلچی کی جان لینے کا یہ ایک ہی واقعہ ہوا، اس لیے آپ نے شہدا کا بدلہ لینا اور شرحبیل کی تادیب کرنا ضروری سمجھا ۔ جمادی الاولیٰ۸ھ (ستمبر۶۲۹ء)میں تین ہزار کا لشکرتیار کر کے آپ نے حضرت زید بن حارثہ کو امیر مقرر کیااور فرمایا: ’’اگر زید شہید ہوئے تو جعفر بن ابوطالب امیر ہوں گے، اگرجعفر شہادت پا گئے تو عبداﷲ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے۔وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے تو مسلمان باہمی رضامندی سے اپنا امیر چن لیں‘‘ (بخاری، رقم ۴۲۶۱)۔ شرحبیل کو جیش اسلامی کی روانگی کی خبر ملی تو اس نے مقابلے کے لیے دو لاکھ سپاہیوں پر مشتمل بڑی فوج تیار کی۔بحیرۂ مردار کے ساحل پر، دریاے اردن کے مغربی کنارے سرزمین بلقا (موجودہ کرک) میں مشارف کے مقام پر دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ حضرت زید نے چھ دن تک ضرب و فرار (hit and run) کی اسٹریٹیجی سے کام لیا۔ ساتویں دن وہ سامنے (front) سے نمودار ہوئے، جونہی رومی فوج کے پرے بڑھنے لگے ، انھوں نے پسپائی اختیار کر لی۔رومی فوج نے ان کا پیچھا کیا، لیکن دو لاکھ کی فوج عجلت میں اپنی ترتیب قائم نہ رکھ سکی۔ موتہ کے مقام پرحضرت زید نے پلٹ کر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ سوصفوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا حصہ ان کا ہدف بناجو حملے کی تاب نہ لا سکا۔رومیوں نے راہ فرارپکڑی اور اپنے لشکر ہی کو روندتے ہوئے کھلے میدان کی طرف بھاگے۔ اس اثنا میں حضرت زید بن حارثہ پر چاروں طرف سے وار ہو رہے تھے، زیادہ خون بہ جانے سے وہ گھوڑے سے گر پڑے اور جام شہادت نوش کیا۔ فرمان نبوی کے مطابق حضرت جعفر بن ابوطالب فوراً آگے بڑھے، اپنے سرخ گھوڑے سے اترے ، اسے ذبح کیا ،اسلحہ ہلکا کیا اور علم تھام کر پیادہ ہی لڑنا شروع کر دیا۔ انھوں نے پچاس سے زائد زخم کھائے، پہلے ان کا دایاں بازو کٹا ، انھوں نے علم بائیں ہاتھ میں تھام لیا پھر بایاں بازو کٹا ، انھوں نے کٹے ہوئے بازوؤں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جاں فشانی سے لڑتے رہے۔ آخرکار حضرت جعفر کے جسم میں ایک نیزہ آ کر کھبا تو وہ اسی طرح چلتے ہوئے دشمنوں کے ایک فوجی سے جا ٹکرائے۔ نیزہ اس کے جسم سے پار ہوا تو بیک وقت دونوں موت سے ہم کنار ہوئے ۔حضرت عبداﷲ بن رواحہ بھی جاں فشانی سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولید نے علم تھاما اورایک دن مزید جنگ کرنے کے بعد لشکر کو بہ حفاظت مدینہ واپس لے آئے۔حضرت جعفر کو ثنےۃ الکرک کے مقام پر دفن کیا گیا،ان کی عمر اکتالیس برس تھی۔ 
مدینہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو شہداے جنگ موتہ کی اطلاع ملی توآپ منبر پر تشریف لائے اور حضرت زید، حضرت جعفر اورحضرت ابن رواحہ کے لیے دعاے مغفرت فرمائی (مسند احمد، رقم۲۲۵۶۶)۔ پھر آپ حضرت جعفر کے گھر روانہ ہوئے۔
حضرت اسماء بنت عمیس بیان کرتی ہیں: میں نے چالیس کھالیں دباغت کر کے تیارکیں ، آٹا گوندھااور بچوں کو نہلا دھلا کر تیل لگاکر فارغ ہوئی تھی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے: اے اسماء، جعفر کے بچے کہاں ہیں؟میں انھیں لے کر آئی ،آپ نے انھیں اس طرح چمٹایااور پیار کیا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔میں نے کہا: یا رسول اﷲ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،شاید آپ کو جعفر کی کوئی خبر ملی ہے؟ فرمایا: ہاں، آج وہ شہید ہو گئے ہیں،انھیں سونے کے پلنگ پر جنت لے جایا گیا ہے۔میں چیخ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور عورتوں کو اکٹھا کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: اسماء، واہی تباہی نہ بولو اور سینہ مت پیٹو۔پھرآپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہ ہائے چچا! کہہ کر روتی ہوئی آئیں تو آپ نے فرمایا:جعفر جیسوں ہی کے لیے رونے والیوں کو رونا چاہیے۔ آپ نے آل جعفر کے لیے کھانا پکانے کا حکم دیا اور فرمایا:آج وہ مغموم ہیں اوراپنے کھانے کا انتظام نہ کر سکیں گے (ترمذی، رقم۹۹۸۔ ابن ماجہ، رقم ۱۶۱۱۔ مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۶۔ الکامل، ابن اثیر ۲/ ۱۱۴)۔ جنگ موتہ کا لشکر مدینہ پہنچا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شہر سے باہر نکل کر استقبال کیا۔آپ نے حضرت عبداﷲ بن جعفر کو اونٹنی پر اپنے آگے سوار کیا۔کچھ اصحاب نے اہل لشکر کو میدان جنگ سے بھاگ آنے کے طعنے دیے تو آپ نے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ ان شاء اﷲ یہ دوبارہ حملہ آور ہوں گے۔
آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت جعفر کے گھرآئے تو فرمایا: میرے بھتیجوں کو لے آؤ۔وہ ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ نے انھیں پیار کیا ،ساتھ چمٹایا اورحجام کو بلا کر ان کے سر منڈائے پھر فرمایا: محمد بن جعفر ہمارے چچا ابوطالب سے مشابہت رکھتا ہے۔عبداﷲ بن جعفر کی جسمانی ساخت اور اس کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ نے عبداﷲ کا ہاتھ پکڑا،اسے بلند کیا اور تین باردعا فرمائی: اے اﷲ!توجعفر کے اہل خانہ میں اس کاقائم مقام ہو جا، بہترین طریقے سے جس طرح تو اپنے نیک بندوں میں سے کسی کی جگہ پرکر دیتا ہے۔ عبداﷲ کے ہاتھوں میں برکت ڈال دے۔ آپ نے حضرت اسماء سے کہا: تو تنگ دستی سے ڈرتی ہے ، میں دنیا و آخرت میں ان بچوں کا ولی ہوں،ان کے باپ کی جگہ ہوں (ابو داؤد، رقم۴۱۹۲۔ مسند احمد، رقم۱۷۵۰)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا:آج کے بعد میرے بھائی کا بین نہ کرنا، اسے دو پر مل گئے ہیں ،وہ ان کے ذریعے سے جنت میں جہاں چاہتا ہے، اڑتا پھرتا ہے(ترمذی، رقم ۲۷۶۳)۔
آپ نے عبداﷲ اور محمد کو دیکھ کر پوچھا:کیا وجہ ہے کہ میں اپنے بھتیجوں کو کم زور بدن دیکھ رہا ہوں؟کیا ان کی غذا پوری نہیں ہوتی؟حضرت اسماء نے کہا: ان کو نظر جلد لگ جاتی ہے۔آپ نے فرمایا:ان کو دم درود کرو۔حضرت اسماء نے جھاڑ پھونک کے کچھ کلمے بتائے تو آپ نے فرمایا: ہاں، ان پر پھونکو (مسلم، رقم ۵۷۷۷۔ مسند احمد، رقم ۱۴۵۷۳)۔ دوسری روایت مختلف ہے، حضرت اسماء بنت عمیس نے خود سوال کیا: یارسول اﷲ، جعفر کے بچوں کو نظر بہت جلد لگتی ہے، کیامیں ان کے لیے جھاڑ پھونک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، کیونکہ اگر کسی چیز کے تقدیر پر غلبہ پانے کا امکان ہوتا تووہ نظر ہی ہوتی‘‘ (ترمذی، رقم ۲۰۵۹۔ ابن ماجہ، رقم ۳۵۱۰۔ مسند احمد، رقم ۲۷۴۷۰)۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر سے حاصل ہونے والے مال فے میں سے آل جعفر کے لیے پچاس وسق (ایک وسق: ساٹھ صاع، پچاس وسق: پچاس اونٹوں پر لادا جانے والا غلہ) سالانہ مقرر فرمائے۔
حضرت اسماء نے اپنے شوہر حضرت جعفر کا مرثیہ یوں کہا:

فآلیت لا تنفک نفسي حزینۃ        علیک ولا ینفک جلدي أغبرا

’’میں نے قسم کھالی ہے کہ میرا دل برابرآپ کے غم میں مبتلا رہے گا اور میرے زخم ہر دم تازہ رہیں گے ۔‘‘

فللّٰہ عینا من رأی مثلہ فتی        أکرّ و أحمی في الہیاج وأصبرا

’’اﷲ اس شخص کی آنکھ ٹھنڈی کرے جس نے اس جیسا جوان دیکھا جو معرکوں میں مڑ مڑکر حملہ کرنے والا، قوم کی خوب حفاظت کرنے والا اور جنگ کی سختیوں پر صبر کرنے والا تھا۔‘‘

حضرت اسماء بنت عمیس بتاتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جعفر کے قتل کے تیسرے روزمیرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:آج کے بعد سوگ نہ کرنا (مسند احمد، رقم۲۷۰۸۳)۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ تین دن ماتمی لباس پہننا، پھر جوجی چاہے کرنا (مسند احمد، رقم۲۷۴۶۷)۔ ’جو جی چاہے کرنا‘کی شرح اس روایت سے ہوجاتی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو پیغام بھیجا کہ آنسوخشک کر لے اور سرمہ لگالے (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۱۲۴)۔ اس حدیث کی بنیاد پر حسن بصری تین دن گزرنے کے بعد بیوہ کے لیے خوشبو لگانا اور زیب و زینت کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔ 
ابن عربی کہتے ہیں: یہ حدیث باطل ہے، آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بیوہ کو آنکھ آنے پر بھی سرمہ لگانے کی اجازت نہیں دی (بخاری، رقم ۵۳۳۸۔ مسلم، رقم۳۷۲۴۔ ابوداؤد، رقم ۲۲۹۹۔ ترمذی، رقم ۱۱۹۷۔ ابن ماجہ، رقم ۲۰۸۴۔ موطا امام مالک، رقم ۱۸۵۷)۔ یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو اتنا ثابت ہوتا کہ تین دن کے بعد بیوہ سوگ کا لباس اتارسکتی ہے۔ ابن حزم اسے منقطع کہتے ہیں، طحاوی منسوخ قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں، تاہم وہ بھی اسے معمول بہ نہیں سمجھتے، کیونکہ اس کا متن دیگر احادیث صحیحہ کے خلاف ہے جن کے مطابق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیوہ کا سوگ چار ماہ دس دن قرار دیا ہے (بخاری، رقم ۵۳۳۴۔ ابوداؤد، رقم ۲۲۹۹۔ ترمذی، رقم ۱۱۹۶۔ ابن ماجہ، رقم ۲۰۸۷۔ موطا امام مالک، رقم۱۸۵۵)۔ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں: ہو سکتا ہے، آں حضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے سرمہ لگانے سے اس لیے منع کیا ہو کہ اس عورت کی بیماری ہلکی ہونے کی وجہ سے آپ کی نگاہ مبارکہ میں اس کا عذر ثابت نہ ہوتا ہو یا سرمہ ڈالے بغیر ہی اس کی آنکھ کے صحیح ہونے کا احتمال ہو۔
اہل ظاہرعدت گزارتی ہوئی بیوہ کو سرمہ استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتے، چاہے اس کی بیماری کتنی بڑھی ہوئی کیوں نہ ہواور آنکھ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔ تاہم جمہور فقہا اس دوران میں آنکھ آنے پر سرمہ لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔امام مالک کہتے ہیں کہ مجبوری کی صورت میں اﷲ کا دین سہولت دیتا ہے (موطا امام مالک، رقم ۱۸۶۲)۔ ان کی دلیل ام المومنین حضرت ام سلمہ کی یہ روایت ہے: ابوسلمہ کی وفات کے بعد(ایام عدت میں) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے ہاں آئے۔ میں نے آنکھوں پر ایلوا (مصبّر، aloe) لگا رکھا تھا۔ فرمایا: یہ کیا ؟میں نے کہا: ایلوا ہے، اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ آپ نے ارشاد کیا: یہ چہرے کو جوان دکھاتا ہے، رات کے وقت لگاؤ اور دن کو صاف کر دو۔ مزید فرمایا: (عدت کے دوران میں) خوشبو اور منہدی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو،بیری کے پانی ہی سے اپنا سر ڈھانپ لیا کرو (ابوداؤد، رقم ۲۳۰۵۔ نسائی، رقم ۳۵۶۷۔ موطا امام مالک، رقم۱۸۶۶)۔ ایک بیوہ نے حضرت ام سلمہ سے استفسار کیا کہ میری آنکھ آئی ہوئی ہے ،میں آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ انھوں نے فتویٰ دیا: انتہائی ضرورت پڑنے پریا مجبوری کی حالت میں صرف رات کے وقت سرمہ لگاؤ اور صبح ہونے پر پونچھ دو (نسائی، رقم ۳۵۶۷۔ موطا امام مالک، رقم۱۸۶۰)۔ امام شافعی کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ معتدہ صرف رات کے وقت سرمہ لگا سکتی ہے ۔ ابن حزم کہتے ہیں: حضرت ام سلمہ کا واقعہ حضرت جعفر بن ابوطالب کی شہادت سے دو سال پہلے پیش آیا(یعنی بعد میں آنے والی صحیح روایت پر عمل کیا جائے گا اور پہلا حکم منسوخ سمجھا جائے گا )۔ مزید برآں، یہ روایت منقطع ہے (محلیٰ ۱۰/ ۲۸۰) کچھ علما نے آنکھ میں سرمہ ڈالنے کی نہی کو نہئ تنزیہ پر محمول کیا ہے۔ 
حضرت اسماء بنت عمیس کی عدت پوری ہوئی تو حضرت ابوبکر نے انھیں نکاح کا پیغام بھیجا۔ ابن حجر کی نقل کردہ روایت کے مطابق جنگ حنین کے روزنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ان کا نکاح پڑھایا۔عرب میں بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کے عقد ثانی میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ایک معمول ہونے کی وجہ سے اسے برا بھی نہ سمجھا جاتا تھا۔ حضرت اسماء بنت عمیس نے حضرت جعفر طیار کا مرثیہ کہاتو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ اپنا گھرکبھی نہ بسائیں گی۔ہمیں یہ روایت عجیب لگی کہ حضرت ابوبکر کے ساتھ ان کا بیاہ ہوا تو ولیمے کے موقع پر حضرت علی نے ان کا کہامرثیہ سنا کر انھیں شرمندہ کیا۔ 
حضرت عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے،حضرت اسماء بنت عمیس قریب بیٹھی ہوئی تھیں کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا: ’’جعفر بن ابوطالب جبرئیل اور میکائیل علیہما السلام کی معیت میں گزرے ہیں اور مجھے سلام کیا ہے۔ اسماء، تو بھی انھیں سلام کا جواب دے‘‘ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۵)۔
شعبان ۹ھ:حضرت عثمان بن عفان کی اہلیہ ،دختر رسول حضرت ام کلثوم کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت ام عطیہ نے انھیں غسل دیا۔
ذوالحجہ ۱۰ھ(مارچ ۶۳۲ء): آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نوے ہزار صحابہ کے جلو میں حجۃ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت اسماء بنت عمیس بھی عازمین حج کے قافلے میں شامل تھے۔آپ ساڑھے پانچ میل چل کر مدینہ کے میقات ذو الحلیفہ پر پہنچے تھے کہ محمدبن ابوبکر پیداہوئے ۔حضرت ابوبکر زچہ وبچہ کومدینہ واپس بھیجنا چاہتے تھے، تاہم نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:اسماء غسل کر کے حالت نفاس ہی میں حج کا احرام باندھ لیں (مسلم، رقم ۲۸۷۹۔ ابوداؤد، رقم۱۷۴۳۔ نسائی، رقم ۲۱۵۔ مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۴۔ موطا امام مالک، رقم ۹۵۱۔ مسند دارمی، رقم ۱۸۳۹)۔دوسری روایت کے مطابق ارشاد ہوا: غسل کر کے لنگوٹ کسیں اور احرام باندھ لیں (مسلم، رقم ۲۹۲۲۔ ابوداؤد، رقم ۱۹۰۵۔ نسائی، رقم۲۹۲۔ ابن ماجہ، رقم ۲۹۱۳۔ مسند احمد، رقم ۱۴۴۳۹۔ مسنددارمی، رقم ۱۸۸۵)۔ تیسری روایت میں اضافہ ہے، اسماء بیت اﷲ کا طواف نہ کریں، البتہ دوسرے لوگوں کی طرح حج کے بقیہ تمام افعال بجا لائیں (ابن ماجہ، رقم ۲۹۱۲)۔ چنانچہ حضرت اسماء نے غسل کر کے لنگوٹ کسا، احرام باندھااور عازم سفر حج ہو گئیں۔
ایک بار رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت اسماء بنت عمیس کے ہاں آئے تو وہ شبرم نامی جھاڑی کوٹ رہی تھیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: اس کا کیا کرو گی؟ انھوں نے بتایا: فلاں بیمارپیے گا۔فرمایا: اگر کوئی شے موت کو ٹال سکتی یا موت سے فائدہ دیتی تو سنا ہوتا (مستدرک حاکم، رقم۷۴۴۰)۔ شبرم کی جھاڑی سعودی عرب، یمن، کویت، عمان اور شمالی افریقہ کے ممالک مصر،تیونس،لیبیا، الجزائر، مراکش میں پائی جاتی ہے۔برصغیر میں نہ پائے جانے کی وجہ سے شبرم کا کوئی اردو یا ہندی متبادل نہیں، البتہ انگریزی میں یہ Zilla Spinosa Prantl کہلاتی ہے۔ Prantl کا لاحقہ اصل میں اس plant پر تحقیق کرنے والے جرمن ماہر نباتیات Karl Anton Eugen Prantl (۱۸۴۹ء تا ۱۸۹۳ء) کا نام ہے۔ floraofqatar.com نامی website میں شبرم کے علاوہ shaga اور silla اس کے عام فہم نام (common names) بتائے گئے ہیں۔
اسی موضوع سے متعلق دوسری روایت ذرا مختلف ہے۔ ایک بارنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے پوچھا: تم کس چیز کا جلاب لیتی ہو؟بتایا، شبرم۔ فرمایا: گرم ہوتا ہے گرم۔ حضرت اسماء نے کہا: پھر میں نے سنا کا جلاب لیا تو فرمایا: اگر کسی شے میں موت سے شفا ہوتی تو وہ سنا ہوتا (ترمذی، رقم ۲۰۸۱۔ ابن ماجہ، رقم ۳۴۶۱۔ مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۷۴۴۱)۔ سنا، سنا حجازی، سناکلی یا سنامکی (senna) عرب میں پایاجانے والا پھلی دار، قبض کشا پودا ہے جس کا قہوہ بنا کر پیا جاتا ہے۔ یہ انتڑیوں کے اعصابی نظام (myenteric plexus) کو انگیخت کر کے بڑی آنت کی حرکت زیادہ کرتا ہے، پانی کو آنتوں سے خون میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔ ان دونوں عملوں (actions) سے قبض کشائی ہوتی ہے۔
ایک بار حضرت ابوبکر گھر آئے تودیکھا کہ ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس کے پاس بنو ہاشم کے کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ انھیں حضرت اسماء پہ پورا بھروسا تھا۔ پھر بھی یہ اچھا نہ لگا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:اﷲ نے اسماء کو تہمتوں سے پاک کر دیا ہے ۔پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:آج کے بعد کسی شخص کی غیرموجودگی میں اس کے گھر کوئی داخل نہ ہو، مگر اس کے ساتھ ایک یا دو آدمی ہوں (مسلم، رقم ۵۷۲۸۔ مسند احمد، رقم۶۵۹۵)۔ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں: حضرت ابو بکر کو غیرت جبلی کی وجہ سے برا محسوس ہوا، حالاں کہ انھیں یقین تھا کہ حضرت اسماء نے آنے والوں کو کسی بھلے مقصد ہی سے گھر میں بٹھایا ہو گا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہی اس لیے فرمائی کہ تہمت کے اسباب کاسد باب کیا جائے۔ آج کے زمانہ میں ایک سے زیادہ آدمی ہوں تو بھی بدگمانی کا اندیشہ ہو سکتا ہے، اس لیے احناف اجنبی عورت کے ساتھ مردوں کی خلوت حرام سمجھتے ہیں۔
حضرت عمرو بن عاص نے اپنے غلام ذکوان کو کسی کام سے حضرت اسماء بنت عمیس کے پاس بھیجااور اسے ہدایت کی کہ پہلے حضرت علی سے اجازت لے لینا۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ عورتوں سے ان کے خاوندوں کی اجازت کے بغیر ملیں (ترمذی، رقم۲۷۷۹۔ مسند احمد، رقم ۱۷۷۶۷)۔
حضرت اسماء بنت عمیس بیان کرتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا:میں تمھیں وہ کلمات نہ سکھا دوں جو تم کسی مصیبت کے آنے سے پہلے یا اس میں مبتلا ہونے کے بعد کہہ لیا کرو؟ ’اللّٰہ اللّٰہ ربي، لا أشرک بہ شیئًا‘، ’’اللہ، اﷲ میرا رب ہے، میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤں گی‘‘ (ابوداؤد، رقم ۱۵۲۵۔ ابن ماجہ، رقم ۳۸۸۲۔ مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۲)۔
حضرت عائشہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرض وفات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں: آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہوئے تو اسماء بنت عمیس نے کہا: یہ شدت پسلی کے درد( ذات الجنب، نمونیا) ہی سے ہو سکتی ہے۔آپ کو نمونیا کی دوا پلا دی جائے تو اچھا ہو۔ آپس میں مشورہ کر کے ہم نے دہن مبارک میں دواانڈیلی تو آپ اشارہ کرتے رہے کہ مجھے دوا نہ پلاؤ۔ہم نے یہی سمجھا کہ ہر بیمار دوا پینے سے کراہت محسوس کرتا ہے۔ جب آ پ کو ہوش آیا تو ناراض ہو کر فرمایا:میں نے تمھیں دوا پلانے سے روکا نہیں تھا۔ہم نے کہا: سب مریض دوا پینے سے انکار کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا: میری آنکھوں کے سامنے گھر میں موجود ہر فرد کو (تادیباً) دوا پلائی جائے۔ عباس کو رہنے دیا جائے، کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہ تھے (بخاری، رقم ۴۴۵۸۔ مسلم، رقم ۵۸۱۳۔ مسند احمد، رقم ۱۷۸۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۷۴۴۷)۔ دوسری روایت میں آپ کا یہ ارشاد نقل ہوا: یہ دوا وہ عورتیں لائی ہیں جو وہاں سے آئی ہیں،یہ کہہ کر سرزمین حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ اور حضرت اسماء بنت عمیس حبشہ میں رہ کر آئی تھیں۔آپ نے فرمایا: ذات الجنب کی بیماری شیطان کی طرف سے آتی ہے اور اﷲاس بیماری کو مجھ پر مسلط نہ کرے گا (مسند احمد، رقم ۲۷۴۶۹۔ مستدرک حاکم، رقم۸۲۳۵)۔ ابن اسحق کی روایت مختلف ہے،حضرت ام سلمہ ، حضرت میمونہ ، حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت عباس نے مل کر آپ کو دوا پلانے کا فیصلہ کیا اور حضرت عباس نے کہا: دوا میں پلاتا ہوں (السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۴/ ۲۲۴)۔ طبری کا کہنا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے چچا عباس نے آپ کو دوا پلائی ہے (طبری ۲/ ۲۳۰)۔
واقدی کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات میں صحابہ نے شک کیا، کچھ کا خیال تھا کہ آپ کی وفات نہیں ہوئی۔ تب حضرت اسماء بنت عمیس نے آپ کے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر مہر نبوت کو ٹٹولااوراسے نہ پا کر آپ کی وفات کا اعلان کر دیا۔ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے۔
رمضان ۱۱ھ: حضرت فاطمہ مر ض وفات میں مبتلا ہوئیں تو حضرت اسماء بنت عمیس سے کہا:مرنے کے بعد عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے ، مجھے برا لگتا ہے۔چارپائی پر رکھ کر ان پر ایک کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جس سے ان کا جسم نمایاں ہوتا ہے۔حضرت اسماء نے کہا:دین و ایمان کی قسم،میں آپ کے لیے اس طرح کی نعش بناؤں گی جیسا کہ سر زمین حبشہ میں بناتے دیکھی ہے۔ حضرت فاطمہ نے کہا: بنا کر دکھائیے ۔تب انھوں نے کھجور کی چند تر ٹہنیاں منگوائیں، ان کے پتے کاٹ کر چارپائی پر اس طور سے رکھ دیں کہ درمیان سے ابھری ہوئی تھیں پھر ان پر کپڑا ڈال دیا۔خطۂ عرب میں یہ سب سے پہلے بنائی جانے والی نعش تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت فاطمہ مسکرائیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے انھیں اسی دن تبسم کرتے دیکھا۔جب ان کی وفات ہوئی تو ہم نے اسی طریقے پر ان کا جنازہ اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں تدفین کر دی (مستدرک حاکم، رقم ۴۷۶۳)۔ ۲۰ھ میں حضرت اسماء بنت عمیس نے ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے لیے بھی نعش بنا ئی۔
حضرت فاطمہ نے وصیت کی کہ حضرت اسماء بنت عمیس ان کو غسل دیں۔ چنانچہ حضرت اسماء اور حضرت علی نے مل کر ان کوغسل دیا (مستدرک حاکم، رقم۴۷۶۹)۔ حضرت عائشہ بھی اندر آنا چاہتی تھیں، لیکن حضرت اسماء نے انھیں روک دیا۔ انھوں نے حضرت ابوبکر سے شکایت کی۔ انھیں بتایا گیا کہ حضرت فاطمہ کی وصیت تھی کہ انھیں حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت علی نہلائیں، کوئی تیسرا فرد شامل نہ ہو تو کوئی اعتراض نہ کیا۔ 
حضرت ابوبکر کی وفات ہوئی تو ان کی وصیت کے مطابق حضرت اسماء نے انھیں غسل دیا۔غسل دینے کے بعد انھوں نے جنازے پر موجود کبار مہاجرین سے استفسار کیا کہ میں روزے سے ہوں اور آج سخت سرد دن ہے، کیا مجھ پر غسل کرنا واجب ہے؟ جواب ملا: نہیں (موطا امام مالک، رقم ۶۲۲۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۶۱۲۳)۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکر نے حضرت اسماء کو یہ وصیت بھی کی تھی کہ غسل دینے کے دن وہ روزہ نہ رکھیں، لیکن وہ بھول گئیں۔ انھیں آخر ی وقت حضرت ابوبکر کی وصیت یاد آئی تو پانی منگا کر پیا اور عہد کیا کہ اب ابوبکر کی قسم ٹوٹنے نہ دوں گی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکر نے حکم دیا کہ اگر چاہیں تو اسماء میرے بیٹے محمدسے مدد لے لیں۔راوی کہتے ہیں کہ محمدبن ابوبکر کو میت نہلانے کا کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تین برس کے تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت اسماء کو غسل دینے کی وصیت کی تو انھوں نے کہا: میرے لیے یہ ممکن نہ ہو گا، تب انھوں نے کہا: عبدالرحمن تمھاری مددکر دے گا۔
حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی نے حضرت اسماء بنت عمیس سے عقد کر لیا۔حضرت ابوبکر کے گھر جنم لینے والے محمد بن ابوبکر حضرت اسماء کے ساتھ حضرت علی کی پرورش میں آگئے۔حضرت علی سے شادی کے بعد حضرت اسماء کے ہاں یحیےٰ پیدا ہوئے۔ ابن کلبی نے ان کے دوسرے بیٹے عون کا ذکر کیا ہے ۔ ابن اثیر نے حضرت اسماء بنت عمیس کاایک تیسرا بیٹا محمد (اصغر) بتانے کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ شاید اسے حضرت علی کی باندی (ام ولد)نے جنم دیا۔ اس کے باوجود حضرت اسماء کو ام المحمدین (دو محمدوں کی والدہ)کہا جاتا ہے۔ 
خلیفۂ دوم حضرت عمر نے دیوان وظائف مرتب کیا تو حضرت اسماء بنت عمیس کا وظیفہ ایک ہزار درہم (یادس ہزار) مقرر کیا۔ دوسری مہاجرات سابقات، حضرت اسماء بنت ابوبکر اورحضرت ام عبد (والدۂ حضرت عبداﷲ بن مسعود) کا وظیفہ بھی ایک ہزار درہم تھا۔
حضرت اسماء بنت عمیس دین کا اچھا فہم رکھتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب خوابوں کی تعبیر کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے ۔اپنی زندگی کا آخری خطبۂ جمعہ دینے کے لیے وہ منبر پرکھڑے ہوئے۔حمد وثنا کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کو یاد کیا ۔پھر اپنا خواب سنایاکہ مجھے ایسے لگاجیسے ایک سرخ مرغ نے مجھ کو دو ٹھونگے مارے۔مجھے اپنی موت قریب نظر آنے لگی تو اسماء بنت عمیس سے اپنا خواب بیان کیا ۔انھوں نے یہ تعبیر کی ہے کہ مجھے ایک عجمی شخص قتل کرے گا (مسند احمد، رقم۸۹)۔
حضرت اسماء بنت عمیس نے اپنے ہاتھ گدوائے (tattoo) ہوئے تھے۔عفان نے دیکھا کہ وہ گدے ہوئے ہاتھوں سے حضرت ابوبکر سے مکھیاں جھل رہی تھیں۔
ایک بار حضرت اسماء بنت عمیس کے دو بیٹوں محمد بن جعفر اور محمد بن ابوبکر نے اپنے اپنے والدکا نام لے کر مفاخرت کا اظہار کیا۔دونوں کہتے تھے: میرے والد تمھارے والد سے بہتر تھے، اس لیے میں صاحب شرف ہوں۔ حضرت علی نے حضرت اسماء کو ان کے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کو کہا۔انھوں نے کہا: میں نے جعفر سے اچھا عرب جوان اور ابوبکر سے بڑھیا کہل نہیں دیکھا۔حضرت علی نے کہا: تم نے میرے لیے کوئی وصف نہیں چھوڑا۔اگر اس کے علاوہ فیصلہ دیتی تو میں ناراض ہوتا۔تب حضرت اسماء نے کہا:ان تینوں ( حضرت جعفر ،حضرت ابوبکر اورحضرت علی )میں سے کم ترین بھی بہترین ہے۔
حضرت عبداﷲ بن جعفر کی شادی حضرت زینب بنت علی سے ہوئی۔ان کے بیٹے عبید اﷲ، عون اور محمدکربلا میں شہید ہوئے۔ حضرت محمد بن جعفر (دوسری روایت ، حضرت عون بن جعفر )کا بیاہ حضرت ام کلثوم بنت علی سے ہوا، ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی اوروہ جوانی ہی میں فوت ہو گئے۔حضرت عون بن جعفر بھی لاولد رہے۔
حضرت اسماء کو خبر ملی کہ ان کے بیٹے محمد بن ابوبکر کو مصر میں قتل کر دیا گیا ہے تو وہ اپنے گھر میں جاے نماز پر بیٹھ گئیں اور غم و غصے کو دبانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ ان کے پستانوں سے خون جاری ہو گیا۔
حدیث کی چار بڑی کتابوں میں حضرت اسماء بنت عمیس کی روایات پائی جاتی ہیں۔حدیث انھوں نے براہ راست رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی۔ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابو موسیٰ اشعری ،ان کے بیٹے حضرت عبداﷲ بن جعفر ،ان کے بھانجے حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت عبداﷲ بن شداد، ان کے پوتے قاسم بن محمدبن ابوبکر ،پوتی ام عون بنت محمد بن جعفر ،زید خثعمی، سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر، عامر شعبی، عبید بن رفاعہ،عتبہ بن عبداﷲ،ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری ،ابویزید مدینی،فاطمہ بنت علی اور فاطمہ بنت حسین۔
حضرت اسماء بنت عمیس نے رسول اﷲ کے سامنے اپنی کسی ضرورت کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم اس دن کیا کرو گی، جب لوگ ایک شخص(دجال) کے تسلط میں مبتلا ہو جائیں گے جو زمین کے چشموں اور باغات پر قابض ہو گا ،جو اس کی پیروی کرے گا ،اسے کھانے کو دے گا اور جو اس کا حکم نہ مانے گا ،اسے محروم رکھے گا؟ حضرت اسماء نے سوال کیا: ایک باندی تندور پر روٹیاں لگواتی دھر لی جائے گی؟ہوسکتا ہے مجھے نماز پڑھتے ہوئے قابو کر لیا جائے، تب ہم کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا: اﷲ اہل ایمان کو ایسے ہی محفوظ رکھے گا جیسے فرشتوں کو تسبیح کے ذریعے سے بچاتا ہے۔ اس شخص کی آنکھوں کے بیچ کافر لکھا ہو گا جسے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ مومن دیکھ لے گا (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۸۸۱)۔ 
حضرت عائشہ کی رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوئی۔تب حضرت اسماء بنت عمیس حبشہ میں تھیں۔ اس کے باوجودیہ بات ان سے منسوب کر دی گئی ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ کو دلہن بنایا ۔ انھوں نے اس پیالے سے دودھ بھی پیا جس میں سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ پی چکے تھے (مسند احمد، رقم۲۷۴۷۱)۔ اصل میں یہ روایت حضرت اسماء بنت یزید(مسند احمد، رقم۲۷۵۹۱)کی تھی جو غلطی سے حضرت اسماء بنت عمیس سے جوڑ دی گئی۔
باقر مجلسی نے حضرت فاطمہ کے نکاح میں حضرت اسماء بنت عمیس کی موجودگی کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ بنت عمیس نہیں، بلکہ حضرت اسماء بنت یزید تھیں(بحار الانوار: جلد ۱۸، باب تزویج فاطمۃ الزہر اء)۔
کچھ باکمال محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس بحیرۂ احمر (Red Sea) عبور کر کے حبشہ سے مدینہ آتی جاتی رہی ہیں، اس لیے ان کے لیے حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ کی شادیوں میں آنا ممکن ہوا۔ 
کچھ منکر اور واہی روایات بھی حضرت اسماء بنت عمیس کے نام کر دی گئی ہیں جیسے یہ روایت کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بار صہبا کے مقام پر ظہر کی نماز پڑھائی پھرحضرت علی کو کسی کام بھیجا۔وہ لوٹے تو آپ عصر پڑھا چکے تھے، آپ اپنا سرحضرت علی کی گود میں رکھ کر سو گئے۔ اسی حالت میں آپ پر وحی نازل ہو گئی، سورج غروب ہو گیااور حضرت علی عصر کی نماز ادا نہ کر سکے۔بیدار ہونے پر آپ کو معلوم ہوا تودعا فرمائی:’اے اﷲ، تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی سے وابستہ کر رکھا ہے۔اے اﷲ، وہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مشغول تھا، اس لیے اس کی خاطر سورج لوٹا دے۔ چنانچہ پہاڑوں پر دوبارہ دھوپ چمکنے لگی،حضرت علی نے عصر کی نمازپڑھ لی تو سورج پھر غروب گیا۔ حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں:میں نے سورج کو ڈوبتے ہوئے اور دوبارہ طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔ سند کی کم زوریوں کے علاوہ روایت کا متن بھی قابل اعتراض ہے ۔غزوۂ خندق کے موقع پرنبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ کی عصر کی نماز قضا ہوئی تب تو سورج واپس نہ آیا۔اگر یہ معجزہ حقیقتاً واقع ہوا ہوتا توایک مشہور واقعے کی طرح زبان زد عام ہوتا اور ہر مومن، ہر کافر اسے بیان کرتا۔اس کے باوجود طحاوی نے اس روایت کی توجیہ کرنے کی کوشش کی (شرح مشکل الآثار:۱۰۶۷)۔ حضرت اسماء کے علاوہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری سے بھی یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے۔
حضرت اسماء کی وفات حضرت علی کی شہادت سے دو برس قبل ۳۸ھ میں ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ ان کی قبر دمشق کے مقبرۂ باب صغیر میں ہے۔ 
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیراعلام النبلا (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، کتاب العبر ودیوان المبتدأ والخبر (ابن خلدون)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔

________

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Dec 29, 2018
3912 View