حج و عمرہ - جاوید احمد غامدی

حج و عمرہ

 یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ اِن کی تاریخ اُس منادی سے شروع ہوتی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے مسجد حرام کی تعمیر کے بعد کی تھی کہ لوگ خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اور توحید پر ایمان کا جو عہد اُنھوں نے باندھ رکھا ہے، اُسے یہاں آ کر تازہ کریں۔
اپنے معبود کے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اُس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان و مال، سب اُس کے حضور میں نذر کر دینے کے لیے حاضر ہو جائے۔ حج و عمرہ اِسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اِس لحاظ سے اُس کی تفصیل کر دیتا ہے کہ اِس سے وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان و مال نذر کر دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آدم کی تخلیق سے اُس کی جو اسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اُس کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اِس ازلی دشمن اوراِس کی ذریت کے خلاف برسرجنگ ہیں۔ یہی اِس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اور ناکامی پر انسان کے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔ اپنا جان ومال ہم اِسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ ابلیس کے خلاف اِس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اِس طرح ہے:
اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراُس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
پھر ’لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔
اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے، اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا و مناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ 
تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑاؤ کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں۔ 
پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اور نذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ 
پھر وہاں سے لوٹتے اوراگلے دویا تین دن اِسی طرح شیطان پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں۔
اِس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اِس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو اَن سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔ 
تلبیہ اُس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی تعمیرنو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر بلند کی تھی۔ اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اوراللہ کے بندے اُس کی نعمتوں کا اعتراف اور اُس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اِس صدا کے جواب میں ’لَبَّیْکَ، اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘ کا یہ دل نواز ترانہ پڑھتے ہیں۔ 
طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دین ابراہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اُسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے۔ 
حجراسود کا استلام تجدید عہد کی علامت ہے۔ اِس میں بندہ اِس پتھر کوتمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اِس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا اورعہد ومیثاق کی قدیم روایت کے مطابق اِس کو چوم کر اپنے اِس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے وہ جنت کے عوض اپنا جان ومال، سب اللہ کے سپرد کرچکا ہے۔ 
سعی اسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اِس قربان گاہ کو دیکھا تھا اورپھر حکم کی تعمیل کے لیے ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ چنانچہ صفا ومروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اِس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔ 
عرفات معبد کا قائم مقام ہے، جہاں شیطان کے خلاف اِس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا و مناجات کرتے ہیں۔ 
مزدلفہ راستے کا پڑاؤ ہے، جہاں وہ رات گزارتے اور صبح اُٹھ کر میدان میں اترنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دعاومناجات کرتے ہیں۔ 
رمی ابلیس پر لعنت اور اُس کے خلاف جنگ کی علامت ہے۔ یہ عمل اِس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ یہ معلوم ہے کہ انسان کا یہ ازلی دشمن جب وسوسہ انگیزی کرتا ہے تو اِس کے بعد خاموش نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تاہم مزاحمت کی جائے تو اِس کی تاخت بتدریج کمزور ہوجاتی ہے۔ تین دن کی رمی اوراِس کے لیے پہلے بڑے اور اِس کے بعد چھوٹے جمرات کی رمی سے اِسی بات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ 
قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اِس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اِس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ 
اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر غیر معمولی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پرزندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ فرض کی گئی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2012
مصنف : جاوید احمد غامدی