علم کی بنیاد - جاوید احمد غامدی

علم کی بنیاد

[۱]

علم کا اولین موضوع کیا ہے؟ ایک راے یہ ہو سکتی ہے کہ علم کا اولین موضوع وجود ہے، اِس لیے کہ علم خود من جملہ موجودات ہے اور موجودات پر بحث سے پہلے وجود کی حقیقت زیر بحث آنی چاہیے۔ لیکن اِس میں مشکل یہ ہے کہ موجود کی اِس حیثیت سے قطع نظر کر لیا جائے کہ وہ معلوم ہے تو اُس پر بحث نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بحث سے پہلے اگر حق کو باطل اور صحیح کو غلط سے الگ پہچاننے کا کوئی معیار متعین نہ ہو تو ہم اپنے نتائج علمی پر مطمئن کس طرح ہوں گے؟ دوسری راے یہ ہو سکتی ہے کہ علم کا اولین موضوع نفس ہے، لیکن اِس میں بھی وہی مشکل ہے جو اوپر وجود سے متعلق بیان ہوئی۔ لہٰذا ناگزیر ہے کہ علم کا اولین موضوع خود علم ہی کو قرار دیا جائے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ علم نفس کے احوال میں سے ہے اور ذات ہمیشہ صفات و احوال پر مقدم ہوتی ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ صفات پر بحث کو ذات کی بحث کے تابع ہونا چاہیے۔ مگر ذات کی بحث کیا ہے؟ یہ اگر غور کیجیے تو صفات ہی کی بحث ہے، خاص طور پر اُس صفت کی جو تمام صفات میں سب سے خاص، سب سے مقدم اور سب سے بڑھ کر اُس کی ماہیت میں داخل ہو۔ نفس کے احوال میں علم کی حیثیت یہی ہے، اِس لیے کوئی چارہ نہیں کہ سب سے پہلے خود علم کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

امام حمید الدین فراہی کے علوم و معارف میں جس چیز کو منطق اعلیٰ یا میزان سے تعبیر کیا گیا ہے، اُس کا موضوع یہی ہے۔ امام نے متنبہ فرمایا ہے کہ یہ وہ منطق نہیں ہے جس کی ابتدا ’’اورجانون‘‘(Organon)کے مصنف سے ہوئی تھی۱؎۔اِس لیے کہ وہ منطق اُس علم سے بحث کرتی ہے جس کا اکتساب اولیات سے استدلال کے طریقے پر کیا جاتا ہے۔ یہ اولیات اُس کا موضوع نہیں ہیں، اِنھیں اصول موضوعہ کی حیثیت سے مان لیا جاتا ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ اِن پر بحث کا موقع علم ما بعد الطبیعیات میں ہے، مگر اِس علم کو دیکھا جائے تو اِس کے موضوعات عدد، وجود اور اِس نوعیت کے دوسرے مقولات ہیں جنھیں زیادہ سے زیادہ معلومات عامہ کہا جا سکتا ہے۔ علم کی بنیاد کیا ہے؟ اِس پر اُس میں بھی کوئی بحث نہیں کی گئی۔ چنانچہ تمام عمارت ہوا پر قائم ہے اور تشکیک و جہالت کے جس دروازے کو بند کرنے کے لیے اِس تمام جدوجہد کی ابتدا ہوئی تھی، وہ اُسی طرح کھلا رہ گیا ہے، جس طرح اِس فن کی ترتیب و تدوین سے پہلے کھلا ہوا تھا۔

امام نے لکھا ہے کہ اِس عنوان کے تحت اُس چیز پر بحث ہونی چاہیے جس سے علم اضطراراً اور سب سے پہلے متعلق ہوتا اور اُس کے ضروری قضایا متعین ہو جاتے ہیں۔ یہاں کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ اِس سے اُن کی مراد اولیات ہیں۔ ہرگز نہیں، یہ اُن سے پہلے کی چیز ہے جسے وہ بناے علم کہتے ہیں، جو اگر منہدم ہو جائے تو علوم کی عمارت منہدم ہو جاتی ہے، بلکہ خود علم و یقین کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے اِس معاملے میں غلطی کھائی ہے، وہ اضطراب و توہمات اور حیرت و استعجاب کی تاریکیوں میں گم ہیں اور اُنھوں نے معلوم کو مجہول اور ثابت کو معدوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اِن تاریکیوں سے نکلنے کے لیے اولاً، اُس چیز کو سمجھا جائے جو تمام علم و حکمت کی بنیاد ہے اور ہمارا یقین اُس سے فطری اور اضطراری طور پر متعلق ہوتا ہے۔ ثانیاً، استدلال کے فطری طریقے کو سمجھا جائے جسے منطق نے ترک کر رکھا ہے۔ تمام علوم کے دروازے اِسی سے کھلیں گے اور ہم ایک ایسی میزان دریافت کر لیں گے جسے میزان حکمت کہنا چاہیے۔ 

[۲]​

تمام علم و حکمت کی بنیاد اُن الہامات پر ہے جو انسان کی فطرت میں ازل سے ودیعت ہیں۔ یہی مدارک تک پہنچتے اور اُن کے لیے علوم و اعمال اور نظر و استدلال کا منبع بنتے ہیں۔ عقل اِن کے حضور میں محکوم محض ہے، وہ اِن کے احکام سے انحراف نہیں کر سکتی۔ انسان کی زندگی اِنھی پر یقین سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اِس یقین کی حقیقت کو سمجھا جائے۔ امام حمید الدین فراہی نے اِس کے جن مبادی کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ ہر ذی حیات عالم خارجی کا یقین رکھتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس یقین کا ظہور حسی علم کے بعد ہی ہوتا ہے، لیکن کیا مجرد احساس اِس کا باعث بن جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے، ہم جب کسی جسم کو چھوتے ہیں تو ہمارا احساس محض ایک حالت ہوتی ہے جو حاسۂ انسانی پر طاری ہو جاتی ہے۔ اِس کے ساتھ اگر ایک حاکم نہ ہو جو حکم لگائے کہ اِس اثر کے لیے ایک موثر ہے تو ممکن نہیں کہ اپنے خارج میں ہم کسی چیز کا یقین حاصل کر سکیں۔ یہ حاکم کون ہے، جس کے سامنے انسان کا ارادہ و اختیار محکوم محض ہو کر رہ جاتا ہے؟ یہ، اگر غور کیجیے تو وہی الہام ہے جو نفس انسانی پر حکومت کر رہا ہے۔ چنانچہ کسی چیز کو چھونے کے بعد جو احساس منتقل ہوتا ہے، اُسی کے ساتھ ایک نوعیت کا فطری استدلال بھی وجود میں آتا ہے جو ہمیں اثر سے موثر تک پہنچا دیتا ہے۔ اِس استدلال کے لیے کوئی مقدمات ترتیب نہیں دیے جاتے۔ یہ فکر و ارادہ کے بغیر وجود میں آتا اور ایسا قوی ہوتا ہے کہ ہم اِس سے اختلاف کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارا کسی چیز کو جاننا اور اُس کے وجود کا یقین حاصل کر لینا علم و یقین کی اُسی قوت کا ظہور ہے جو ہماری فطرت میں ودیعت ہے۔ انسان کو یہ قوت اُس کے خالق نے بالکل اُسی طرح عطا فرمائی ہے، جس طرح اُس کے حواس اور دوسری قوتیں عطا فرمائی ہیں۔

۲۔ ہمارے نفس کا یہ اذعان کہ ایک خارجی عالم موجود ہے، درحقیقت اُس کے اِس اذعان پر مبنی ہے کہ وہ خارج سے الگ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ نفس عالم و معلوم کو، یعنی اُس کو جو محسوس کرتا ہے اور جسے محسوس کیا جاتا ہے، الگ الگ پہچانتا ہے۔ یہ ایک قطعی حقیقت ہے، اِس لیے کہ ایسا نہ ہوتا تو وہ محسوس کو اپنے ساتھ متحد ٹھیراتا اور اپنے اندر کبھی یہ اذعان پیدا نہ کر سکتا کہ محسوس اُس کی ذات سے الگ ایک خارجی وجود ہے۔

نفس کا یہ علم اثر سے موثر پر اُس کے استدلال سے متفرع نہیں ہے، بلکہ اُس کے شرائط و مقدمات میں سے ہے۔ چنانچہ نفس جس طرح اپنی ذات میں اور عالم خارجی میں فرق کرتا ہے، بالکل اُسی طرح اپنی ذات اور اُن اثرات میں بھی فرق کرتا ہے جو اُس کے داخلی محسوسات کی حیثیت سے اُس پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ فرق و امتیاز، اگر غور کیجیے تو اُس کے لیے صرف اِس لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ حامل و محمول اور ذات اور اُس کے عوارض کو الگ الگ دیکھ سکتا ہے۔ نفس نے یہ چیز فکر و تدبر اور ترتیب مقدمات سے حاصل نہیں کی، بلکہ فاطر فطرت کی طرف سے اُس پر الہام کی گئی ہے۔ اِسے خارجی عالم پر ہمارے یقین سے بھی زیادہ راسخ اور اُس پر مقدم سمجھنا چاہیے، اِس لیے کہ یہی وہ اصل ہے جس پر خارج سے متعلق ہمارا یقین مبنی ہے۔

۳۔ اِسی الہام میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ ذات کے بغیر صفات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ چنانچہ نفس جس طرح اِس بات کا یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک ذات ہے جو صفات کی حامل ہو سکتی ہے، اُسی طرح اِس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ اُس کی صفات ہیں جو اِسی ذات سے قائم ہیں۔

۴۔ پھر یہی نہیں، وہ کسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے اور کسی سے گریز کرتا ہے۔ اِسی طرح کسی معاملے پر حسن اور کسی پر قبح کا حکم لگاتا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ صرف اِس لیے کہ وہ ترک و اختیار اور مرغوبات و مکروہات میں امتیاز کر سکتا اور اختیار و تصرف کا یقین رکھتا ہے۔ اُس کی زندگی اِسی یقین سے ہے۔ وہ اِس سے بہرہ مند نہ ہوتا تو اُس سے نہ کسی چیز کے لیے جدوجہد متصور ہو سکتی تھی اور نہ کسی فعل کا ارادہ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح علم و ادراک کے معاملے میں اُس کا یقین الہامی ہے، اُسی طرح اختیار و ارادہ، فعل و تصرف، لذت و الم اور نفرت و محبت کے معاملے میں بھی الہامی ہے۔

۵۔ اِسی کے تحت یہ بات بھی ہے کہ اُسے محسوسات خارجی میں انفعال کا یقین ہے۔ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے کہ محسوسات خارجی اُس کے افعال کا تاثر قبول کرتے ہیں۔ وہ جب ہاتھ بڑھاتا ہے یا کسی چیز کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اپنے اِسی علم و یقین کا اظہار کرتا ہے۔ اُسے یہ یقین نہ ہوتا تو وہ اِن میں سے کوئی اقدام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے تمام افعال اِسی پر مبنی ہیں کہ وہ دوسرے کے انفعال و تاثر کا یقین رکھتا ہے۔ اپنے جسمانی آلات اور اپنی فطری اور حسی قوتوں کے استعمال کی ابتدا اُس نے اِسی یقین سے کی ہے۔ چنانچہ اِس سے جو افعال پیدا ہوئے ہیں، یہ اُنھی کی تکرار ہے جو اُس کے اِس اذعان کا باعث بن گئی ہے کہ وہ محسوسات خارجی میں تصرف کر سکتا ہے۔

۶۔ جو چیزیں نفس کے مماثل نہیں ہیں، وہ اُن میں اور اپنی ذات میں فرق کر سکتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مدرک اور غیر مدرک میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی صفات سے الگ کچھ ایسی صفات بھی ہیں جو اُس کے ادراک میں آتی ہیں، مگر وہ اُن کا حامل نہیں ہے۔ پھر اُن کا حامل کون ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی ایسی ذات جو اُس کے مماثل نہیں ہو سکتی۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ نفس کے الہامات میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ ذات کے بغیر صفات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہٰذا یہی مقام ہے جہاں سے وہ یقین حاصل کر لیتا ہے کہ اُس کے گردوپیش میں ایسے موجودات ہیں جو اُن صفات سے متصف ہیں جو اُس کی ذات سے الگ ہیں۔

۷۔ خیر و شر کا امتیاز بھی من جملہ الہامات نفس ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نفس انسانی صرف مرغوبات و مکروہات میں امتیاز نہیں کرتا، اِس کے ساتھ اُن پر خیر و شر اور بر و اثم کا حکم بھی لگاتا ہے۔ چنانچہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ تمام مرغوبات کو خیر اور تمام مکروہات کو شر سمجھ لے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ اپنے آپ کو وہ گاہے بلندی اور گاہے پستی کی طرف کھنچتا ہوا دیکھتا اور اپنے میلانات میں بہت کچھ اختلاف پاتا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ طیب خبیث سے اور بلندی پستی سے کس طرح الگ ہے۔ چنانچہ وہ اتراتا بھی ہے اور جھجکتا بھی، مدح بھی کرتا ہے اور مذمت بھی، اعتراف عظمت بھی کرتا ہے اور ملامت بھی۔ اِسی طرح غیرت و حمیت بھی دکھاتا ہے۔ یہ سب، اگر غور کیجیے تو فجور و تقویٰ کے اُسی الہام کا نتیجہ ہے جو اُس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔

[۳]​

علم کی تقسیم اگر اُس کے درجات کے لحاظ سے کی جائے تو وہ اضطراری ہو گا یا استدلالی۔ پہلے درجے میں ذات باری اور نفس اور اُس کے خارج کا علم ہے۔ دوسرے درجے میں صفات باری اور نفس اور اُس کے خارج کے احوال کا علم ہے۔ اِس دوسری قسم کے لیے بناے استدلال ضروری ہے۔ یہ بناے استدلال الہامات فطرت بھی ہو سکتے ہیں جنھیں ہم اضطراری علم سے تعبیر کرتے ہیں؛ فکر و استنباط کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں جو معلوم کے درجے تک پہنچ گئے ہوں اور ماضی کا علم بھی جو تعلیم و تعلم کے ذریعے سے منتقل ہوا ہو۔ یہ سب چیزیں، اگر غور کیجیے تو وہی ہیں جو پہلے سے ہمارا یقین و اذعان بن چکی ہوتی ہیں۔ اِسی طرح بنا اور مبنی میں لازم و ملزوم کی نسبت ضروری ہے، اِس طرح کہ اگر بنا کو مانا جائے تو جو اُس پر مبنی ہے، اُس کو ماننا بھی لازم ہو جائے۔ پھر یہ بناے استدلال کسی اصل کی فرع ہو گی یا فرع کی اصل اور دونوں میں لزوم متحقق ہو گا۔ امام فراہی لکھتے ہیں کہ اِس سے استدلال کی جو اقسام وجود میں آئیں گی، وہ یہ تین ہیں:

اولاً، فرع سے اصل پر استدلال، اِس لیے کہ فرع ہے تو اصل کو بھی لازماً ہونا چاہیے۔

ثانیاً، اصل سے فرع پر استدلال، اِس لیے کہ اصل فرع کو متضمن ہوتی ہے، لہٰذا اصل پر غور کیا جائے تو وہ جن فروع کو متضمن ہے، اُن سب پر دلالت کرے گی۔ اصل کو ہم اِسی بنا پر اصل اور فرع کو فرع کہتے ہیں۔

ثالثاً، فرع سے دوسرے فروع پر استدلال، جس کا ذریعہ اصل کا ثبوت ہو گا۔ چنانچہ فرع پہلے اپنی اصل پر دلالت کرے گی، پھر اصل دوسرے تمام فروع تک پہنچا دے گی۔

انسان اپنے تمام افکار و اعمال میں فطری طور پر استدلال کے یہی طریقے استعمال کرتا ہے۔ اِن میں غلطی اُسی وقت ہوتی ہے، جب وہ اصل اور فرع کے مابین نسبت کے بارے میں فکر و نظر سے اعراض کر لیتا ہے۔

[۲۰۱۲ء]

__________

۱؎ یعنی ارسطو جس نے جدلی دلائل (Dilectical Arguments)کے نام سے اِس کو ایک باقاعدہ فن کی صورت دی۔ ’’اورجانون‘‘کے مباحث کو اُس کے قدیم مترجمین ایساغوجی(Categories)، انولوطیقا (Analytics) اورطوبیقا (Topics) کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ابتدا تھی، اِس فن کے جو خط و خال بعد میں متعین ہوئے، اُن کے لیے یہ اسکندر افرودیسی کی اُن کاوشوں کا مرہون منت ہے جو اُس نے ’’اورجانون‘‘ کی شرح و وضاحت کے لیے انجام دی ہیں۔

_______________

یہ آرٹیکل جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’مقامات‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : جاوید احمد غامدی