دل و دماغ - ڈاکٹر وسیم مفتی

دل و دماغ

 ایک طبیب کی یادداشت بہت اچھی تھی۔لوگ کئی کئی بر س کے وقفے کے بعد بھی اس سے علاج کرانے آتے تو اسے ان کے نام، ولدیت اور دوسرے کوائف یادہوتے۔اس پر وہ متحیر ہوکر کہتے ، آپ کا حافظہ خوب ہے۔طبیب انکساری سے کہتا، ایسا نہیں، کچھ باتیں یاد رہتی ہیں تو بہت سی بھول بھی جاتی ہیں۔حقیقت بھی یہی تھی،کئی بار ایسا ہوتا کہ وہ کسی سے نام پوچھ کر اس کی بیماری کی طرف متوجہ ہوتا تو چند لمحوں میں بتایا ہوا نام پرد�ۂ ذہن سے بالکل صاف ہو جاتا۔ وہ دوبارہ پوچھتا تو یہ طعنہ سننا پڑتا ،پہلے تو آپ بھولتے نہیں تھے،اب کیا ہوا ہے؟
یہ معاملہ ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔ طبیعت کبھی تو اتنی موزوں ہوتی ہے کہ گھنٹوں کاکام منٹوں میں نکل جاتا ہے اور کبھی کسل مندی اس قدر غلبہ پا لیتی ہے کہ معمولی کام دنوں میں نہیں ہو پاتا۔

گاہ میری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے تو ہمات میں

انسانی وجود اپنی بقا کے لیے خوراک کا محتاج ہے، اسے تازہ ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدن کو راحت ملے اور دماغ کو سکون ہو توہی انسان کچھ کر سکتا ہے۔ ذہن بیدار ہو تو آسمانوں کی خبر لاتا ہے اوریہ ماؤف ہو تو آدمی سامنے کی چیز کا ادراک نہیں کر پاتا۔
گویا اس دنیا میں انسان جب اوج و کمال کی منزلیں طے کررہا ہوتا ہے بعینہ اسی وقت رو بہ زوال بھی ہوتاہے۔اس کی ابتدا تکوین و تخلیق اور انتہا تنزل و فناہے۔ ا للہ تعالی فرماتے ہیں۔ واﷲ خلقکم ثم یتوفٰکم ومنکم من ےُرَد الی ارذل العمرلکی لا یعلم بعد علم شےئاً ط ان اﷲ علیم قدیر ۔ ’’اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہاری جان قبض کرتاہے۔ اور تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو ناکار ہ عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ جان لینے کے بعد کچھ نہ جانتا ہو۔ یقیناًاللہ بڑے علم اور بڑی قدرت والا ہے۔‘‘ (النحل:۷۰)
دماغ کی طرح دل بھی اسی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے۔ کبھی وہ پاکیزہ خیالات اور ملکوتی احساسات کا مسکن ہوتا ہے اورکبھی شیطانی وسوسے اور نفسانی اکساہٹیں اس میں ڈیرا ڈال لیتی ہیں۔ دل کبھی ایک طرف مائل اور راغب ہوتا ہے اور کبھی اسی جانب سے گریزاں، یہ کبھی نشاط سے لبریز ہوتا ہے اور کبھی پژمردگی اس پر چھا جاتی ہے۔
بشر جو کوتاہ بیں اور کوتاہ ہمت ہے، یہ اس کی محدودیت کا اظہار ہے جبکہ اللہ کی ذات بے کراں اور نقائص سے پاک ہے۔ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ۔ وہ تکان کا شکار بھی نہیں ہوتا۔ کیفیت اور طبیعت اس کی صفت نہیں، یہ ہم بندوں کی تقدیر ہے۔ ہمیں اسی تقدیر اور اسی گنجائش کے اندر رہ کر اپنی صلاحیتوں کوعمل میں لاناہے۔ ہمیں دماغ نارسا اور دل متزلزل ہی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے سامنے وہ منزل ہے جو ہمارے مالک اور آقا نے ہمارے لیے متعین کردی ہے۔ ہمیں اس ٹارگٹ تک پہنچنا ہے اور اسی جسم کے ساتھ جاناہے جو زوال پزیر ہے۔ یہی دل ہمارا سہارا ہوگا جو کبھی فلک کی طرف مائل پرواز ہے اور کبھی زمین کی پستیوں کی طرف جھک جاتاہے۔فرصت اور توفیق کے لمحات جو مل جائیں ان کو غنیمت جان لیں تو یہ سفر بخوبی کٹ سکتا ہے۔

 

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2011
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 23, 2016
2291 View