طالبان کی بت شکنی - ڈاکٹر محمد فاروق خان

طالبان کی بت شکنی


افغانستان میں طالبان انتظامیہ کی جانب سے مہاتما بدھ کے ڈھائی ہزار سال قبل کے مجسمے کو مسمار کرنے سے ایک اہم اصولی سوال نے جنم لیا ہے۔ وہ یہ کہ غیر مسلموں کے مقدس مقامات، ان کے قابلِ تعظیم شعائر اور تاریخی اہمیت کے حامل بُتوں کے متعلق اسلام کا کیا نقطۂ نظر ہے؟کیا وہ ان سب کو توحید کی روح کے خلاف قرار دے کر مسمار کرنے کی ہدایت دیتا ہے یا ان کا احترام کرتا ہے؟ فی الوقت طالبان کا موقف یہ ہے کہ ’’ہر وہ بُت جو کسی نمایاں یا پبلک مقام پر ایستادہ ہو، اسے مسمار کرنا لازم ہے۔ تاہم غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے اندر موجود بتوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ اسی لییہم نے نمایاں مجسمے ملیامیٹ کردیے، تاہم ہمارے زیرِ انتظام علاقوں میں مندر اور گردوارے موجود ہیں اور ان کو کچھ نہیں کہا گیا۔ ‘‘
طالبان کے اس اقدام کی حمایت میں چار بنیادی دلائل پیش کیے گئے ہیں: 
پہلی دلیل یہ ہے کہ بتوں کو توڑنا سنتِ ابراہیمی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضورؐ نے بتوں کو توڑا تھا۔تیسری دلیل یہ ہے کہ عظیم حکمران محمود غزنوی نے سومنات میں بت کو توڑا تھا۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ یہ دراصل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کا بدلہ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ظلم وستم کا بازار گرم ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے کسی ایسے اقدام کی ضرورت ہے جس سے ان ظالموں کو بھی تکلیف پہنچے۔ 
ان دلائل پر تفصیلی تجزیہتو آگے آئے گا، لیکن چند امور تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پہلی دلیل کے ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عبادت گاہ کے اندر جاکر بتوں کو توڑا تھا، اس سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے اندر موجود بتوں کو توڑنا ضروری ہے، جب کہ طالبان کہتے ہیں کہ وہ عبادت گاہوں کے اندر موجود بتوں کو نہیں توڑیں گے۔ دوسری دلیل کے ضمن میں بھی یہ بات واضح ہے کہ حضورؐ نے اپنے زیرِ نگیں علاقوں میں نہ صرف یہ کہ تمام بتوں کو مسمار کردیا تھا، بلکہ مشرکین کی تمام عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کردیا تھا۔ چنانچہ آپؐ کے اس اقدام سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کی تمام عبادت گاہوں کو مٹانا بھی ضروری ہے۔ جب کہ اس کے برعکس طالبان کہتے ہیں کہ وہ مشرکین کی عبادت گاہوں اور ان کے اندر موجود بتوں کی حفاظت کریں گے۔ جہاں تک تیسری دلیل یعنی محمود غزنوی کے نقشِ قدم پر چلنے کا تعلق ہے، اس ضمن میں ایک بات تو یہ ہے کہ سومنات کا بت بھی مندر کے اندر تھا۔ اس لیے اس سے بھی طالبان کے نقطۂ نظر کی تائید نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ محمود غزنوی کے زیرِ نگیں علاقے میں تو ہزاروں جگہ بت موجود تھے۔حتیٰ کہ بامیان کے یہ بت بھی اس کی سلطنت میں موجود تھے، لیکن اس ایک بت کے علاوہ تو اس نے کسی بت کو نہیں توڑا۔ جہاں تک چوتھی دلیل کا تعلق ہے تو یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ جن ممالک میں بدھ مت کا اثر زیادہ ہے،وہی ممالک عالمِ اسلام ،خصوصاً افغانستان اور پاکستان کو سب سے زیادہ امداد دیتے ہیں۔ اور انہوں نے عام طور پر مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ ان میں جاپان، کوریا، چین، تھائی لینڈوغیرہ شامل ہیں۔ گویا اس اقدام سے طالبان نے دشمنوں کے بجائے دوستوں کو اپنے آپ سے دور کرلیا ہے۔ یعنی پشتو ضرب المثل کیمطابق ’’گدھے کے بجائے کمہار کو داغ دیا ہے‘‘۔ 
درج بالا دلائل میں پنہاں اسی کمزوری کی وجہ سے ’’لشکرِ طیبہ‘‘ نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہر مسلمان کے لیے ہر آلۂ شرک کو ضائع کرنا اور ختم کرنا ضروری ہے اور مسلمانوں کا جہاں بھی قبضہ ہو وہاں وہ مشرکین کی تمام عبادت گاہوں کو مسمار کرسکتے ہیں۔ لیکن اس موقف کی کمزوری بھی یوں واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دی تھیں۔ ان ہدایات کو تمام مورخین ومحدثین نے نقل کیا ہے۔ ان ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار نہ کیا جائے اور راہبوں وعابدوں کو نہ ستایا جائے۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں جزیرۂ نمائے عرب سے باہر لاکھوں مربع میل کے علاقے فتح ہوئے، مگر کبھی کسی مندر یا بت کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ 
چنانچہ اب ہمیں اس سوال کا علمی لحاظ سے جائزہ لینا ہے کہ غیر مسلموں کے مقدس مقامات، ہستیوں، ان کی مورتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے متعلق اسلام کی ہدایت کیا ہے؟ 
اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہدایت کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی دین کے قبول کرنے اور اس کا اتباع کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ جس کا جی چاہے اسلام قبول کرے اور جس کا جی چاہے قبول نہ کرے۔ جب اسلام غیر مسلموں کو کوئی بھی مذہب قبول کرنے کا حق دیتا ہے تو یہ واضح ہے کہ وہ ان کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کا حق بھی دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اسلام اپنے پیروؤں کو مثبت طور پر ہدایت کرتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کی مقدس ہستیوں کا احترام کریں اور انہیں برا بھلا نہ کہیں۔ اس لیے کہ اگر مسلمانوں نے ایسا کیا تو غیر مسلم ردِعمل میں مبتلا ہوکر اللہ اور اسلام کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ غیر مسلم مقدس ہستیوں کے احترام میں ان کے اصنام اور مقدس مقامات سب کا احترام آپ سے آپ شامل ہے۔ سورہ انعام میں ارشادِ خداوندی ہے: 


’’(اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں برا مت کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناء پر اللہ کو برا کہنے لگیں‘‘۔ (الانعام108:6) 


صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید ان تمام عبادت گاہوں کو بہت محترم سمجھتا ہے جن میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ پروردگار غلط کار لوگوں کو اس دنیا میں بہت زیادہ زور پکڑنے نہیں دیتا، کیونکہ اگر دنیا میں ان غلط کاروں کا دور دورہ ہوجائے تو یہ تمام عبادت گاہوں کو مسمار کر ڈالیں گے۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسجدوں کے علاوہ باقی تمام عبادت گاہوں میں پروردگار کی عبادت کے ساتھ شرک کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: 


’’اگر اللہ (غلط کار) لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں، گرجا، یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں، جن میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘۔ (الحج90:22) 


درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کے نزدیک تمام مذاہب کے مقدس مقامات اور مقدس ہستیاں قابلِ احترام ہیں۔ 
اس ہدایت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ بیت اللہ اور اس کے اردگرد علاقے کی ایک خصوصی حیثیت ہے۔ وہ یہ کہ خانہ کعبہ کو پروردگار کے براہِ راست حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے خالصتاً خدائے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ گویا اس کرہٌ ارض پر یہ جگہ توحید کا مرکز ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ اس پورے علاقے کو شرک کے ہر شائبے سے پاک رکھا جائے۔ اور اس کو خصوصی حیثیت دی جائے۔ مسجدِ حرام یعنی بیت اللہ کے اردگرد کے علاقے کو شرک سے پاک رکھنے کی مصلحت یہ بھی ہے کہ حاجیوں کو سفر میں رکاوٹ پیش نہ آئے، انہیں فراواں رزق ملتا رہے، اور وہاں ایک ایسی حکومت ہو جس کا اصل کام بیت اللہ کی حفاظت وانتظام ہو۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے پروردگار نے حضورؐ کے ہاتھوں فتح کروایا۔ اس میں جزیرۂ نمائے عرب کا بیشتر حصہ شامل ہے۔ چونکہ یہ جگہ توحید کا مرکز ہے، اس لیے اس میں کسی معبد وبت کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے اس پورے علاقے کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردیا۔ اس ہدایت کے مختلف پہلو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بیان ہوئے ہیں۔ 
جزیرۂ نمائے عرب کا وہ حصہ جسے پروردگار نے حضورؐ کے حوالے کردیا، وہاں سے قرآن مجید کی درج بالا ہدایات کے اتباع میں آپؐ نے ہرعبادت گاہ، ہر بت، ہر پُرتعظیم تصویر اور ہر ابھری ہوئی قبر کو ختم کردیا۔ صحیح روایات میں یہ سب نہایت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ 
صحابہ کرامؓ پر اس ہدایت کے دونوں حصے اتنے واضح تھے کہ جونہی اُن کے قدم اِس خصوصی سرزمین یعنی جزیرۂ نمائے عرب سے باہر نکلے تو خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے یہ حکم جاری کیا کہ ہرعبادت گاہ، راہب اور عابد کی حفاظت کی جائے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ سرزمینِ عرب سے باہر فتوحات کے وقت، صحابہ کرامؓ کے دور میں کسیعبادت گاہ کو نہیں چھیڑا گیا۔ دوسرے مذاہب کے کسی مقدس مقام کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ حتیٰ کہ نمایاں مقامات پر واقع بہت بڑے اصنام مثلاً ابوالہول اور ابو سنبل کی بھی پوری حفاظت کی گئی۔ واضح رہے کہ سرزمینِ مصر کے یہ علاقے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے وقت میں فتح ہوئے تھے۔ 
درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں علاقوں میں غیر مسلموں کے تمام مقدس مقامات اور عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا اور ان کا پورا احترام کرنا لازم ہے۔ 
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ایک خصوصی سوال کی طرف توجہ کی جائے جو ہمارے درج بالا موقف کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بتوں کو کیوں توڑا؟ 
اس کا جواب یہ ہے کہ سورہ انبیاء کی آیات 51 تا 71اورسورۃ صٰفٰت کی آیات 83تا 109کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنی نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں اپنی قوم کو ان کے عقیدے کی غلطی اور ان بتوں کی کم مائیگی وبے چارگی پر متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی قوم کے لوگوں کو متوجہ کرنے اور ان کو ان کے افکار کے کھوکھلے پن سے آگاہ کرنے کے لیے پروردگار نے ان کو ایک خاص اسلوب عطا کیا تھا۔ مثلاً جب انہوں نے اپنی قوم کو سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کی، تب بھی انہوں نے ایک منفردطریقہ اختیار کیا۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت کو بھی قرآن مجید نے موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ بتوں کے خلاف ان کے اقدام کے پیچھے یہ بات کارفرما نہیں تھی کہ بتوں کو توڑنا کارِ نبوت کا ایک حصہ ہے، اس لیے انہوں نے بت توڑے۔ اگر ایسا ہوتا تو ابراہیمؑ سب سے بڑے بت کو نہ چھوڑتے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام انبیاء یہ کام کرتے اور اگر ایسا کرنا لازم ہوتا تو حضورؐ مکی دور میں بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو توڑتے۔ جب کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مکی دور کے تیرہ سالوں میں آپؐ نے بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے سینکڑوں بتوں میں سے کسی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ 
اس موضوع پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے ان میں تین باتیں اس قابل ہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جائے۔ ان میں سے ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ حضورؐ کے دور میں صرف ان بتوں کو توڑا گیا جو نمایاں مقامات پر نصب تھے۔ اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان نے بھی عبادت گاہوں کے بجائے نمایاں مقام پر ایستادہ بتوں کو مسمار کرکے ٹھیک کام کیا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ضمن میں تفسیر ابنِ کثیر (اردو) جلد پنجم کے صفحات247اور248کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہی حوالہ یہ ثابت کررہا ہے کہ حضورؐ نے جزیرہ نمائے عرب میں واقع تمام عبادت گاہوں، بتوں اور ہر اس چیز کو مٹادیا تھا جس میں شرک کا کوئی ہلکے سے ہلکا شائبہ بھی موجود تھا۔ درج بالا حوالے کے چند فقرے یہ ہیں: 


’’یہ لوگ اپنے اپنے معبود انِ باطل کے پرستش کدے بناتے تھے۔ لات ایک منقش سفید پتھر تھا جس پرگنبد بنا رکھا تھا۔ غلاف چڑھائے جاتے تھے، مجاور، محافظ اور جاروب کش مقرر تھے۔ اس کے آس پاس کی جگہ کو مثلِ حرم کے حرمت وبزرگی جانتے تھے۔ یہ اہلِ طائف کا بت کدہ تھا۔۔۔۔ اسی طرح ان تین کے علاوہ اور بھی بہت سے بت اور تھان (تھان کے معنی ہیں عبادت والا مقام یعنی معبد) تھے جن کی عرب لوگ پرستش کرتے تھے۔۔۔۔۔ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے۔۔۔۔۔ ذوالخلصہ نامی بتخانہ حضورؐکے حکم سے فنا ہوا۔۔۔۔ فلس نامی بت خانہ کے توڑنے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ مامور تھے۔۔۔ اہل یمن کے بت خانے کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔۔۔۔ رضا نامی بت کدہ بھی ڈھا دیاگیا۔۔۔۔ ذوالکعبات نامی صنم خانہ ۔۔۔۔ سنداد(ایک جگہ کا نام) میں تھا‘‘۔ 


درجِ بالا حوالہ تو یہ ثابت کررہا ہے کہ حضورؐ کے حکم سے سرزمینِ عرب کی تمام عبادت گاہیں، صنم خانے اور بت کدے ڈھا دیے گئے۔ نمایاں اور غیر نمایاں مقامات، یا چاردیواری اور بغیر چاردیواری والی کی جگہوں کی تفریق اس میں کہیں بھی نہیں۔ 
دوسری بات یہ کہی گئی کہ دورِفاروقیؓ میں مصر میں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں اس وجہ سے مسمار نہیں کی گئیں کہ ان سے اس ضمن میں معاہدہ کیا گیا تھا۔ گویا اگر معاہدہ نہ کیا جاتا تو یہ تمام عبادت گاہیں مسمار کر ڈالی جاتیں۔ یہ دلیل دو وجود کی بناء پر غلط ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے سے بہت پہلے حضرت ابوبکرؓ نے ریاستی پالیسی کے طور پر یہ حکم جاری کیا تھا کہ غیر مسلموں کی کسی بھی عبادت گاہ کو نہ چھیڑا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان، غیر مسلموں سے کبھی کوئی ایسا معاہدہ کرہی نہیں سکتے تھے جو توحید کے خلاف ہو اور جو قرآن مجید یا حضورؐ کے ارشادات کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔ اگر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مٹانا اسلام کا حکم ہوتا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ حضرت عمرؓ اس کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر مسلموں سے اس کے برعکس معاہدہ کرتے۔ حضرت عمرؓ نے اہلِ مصر سے جو معاہدہ کیا، وہ یقیناًاسلام کے اتباع اور حضرت ابوبکرؓ کے حکم کی روشنی میں تھا۔ اور وہ معاہدہ اس اصول پر مبنی تھا کہ سرزمینِ عرب سے باہر غیر مسلموں کے کسی بھی معبد یا مقدس مقام کی بے حرمتی مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔ 
تیسری بات یہ کہی گئی کہ ابوالہول اور اس طرح کے دوسرے عظیم بتوں کو دورِ فاروقیؓ میں اس وجہ سے منہدم نہیں کیا گیا تھا کہ یہ صرف ایک مجسمہ نہیں تھا، بلکہ اس طرح ایک انسان کو سزا دی گئی کہ شیر کے دھڑ میں اس کے جسم کو چنوا کر اُسے قابلِ عبرت بنادیا گیا تھا۔ درج بالا بیان صحیح نہیں ہے۔ ابوالہول (SPHINX)اور ابو سنبل وغیرہ عظیم الجثہ بتوں کے متعلق کسی بھی انسائیکلوپیڈیا میں پوری تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے۔ ابوالہول کا مجسمہ ہورس نامی خدا کا نمائندہ تھا۔ (درحقیقت ’’الدعوۃ ‘‘کے مضمون نگار نے یونانی دیو مالا سفنکس کو ابوالہول کے ساتھ خلط ملط کردیا جس سے ان کو غلط فہمی لاحق ہوگئی)۔ ان تمام مجسموں کی عبادت کی جاتی تھی اور ان کو کسی نہ کسی خدا یا خدائی طاقت کا اظہار سمجھا جاتا تھا۔ 
چوتھی بات محمود غزنوی کے اقدام سے متعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمود غزنوی کے کسی اقدام کی ذمہ داری اسلام پر عائد نہیں ہوتی۔ سومنات کا بت ایک مندر کے اندر تھا۔ اس لیے اس سے طالبان کے اقدام کو کوئی تائید بھی نہیں ملتی۔ مزید یہ کہ محمود نے اس ایک بت کے علاوہ اور کوئی بت نہیں توڑا۔ خود اس کے دارالحکومت غزنی میں ہندوؤں کے محلے آباد تھے اور وہاں مندر موجود تھے۔ 
پانچویں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بدھ کے مجسموں کو توڑنا درحقیقت ان زیادتیوں کا بدلہ ہے جو آج کے غیر مسلم ممالک مسلمانوں پر روا رکھ رہے ہیں۔ اس دلیل کا جواب قرآن مجید نے نہایت واضح طور پر دے دیا ہے کہ دوسروں کے غلط کام کے جواب میں مسلمان کبھی بھی خلافِ عدل کام نہیں کرسکتے۔ اس سے صرف ایک صورت مستثنیٰ ہے۔ وہ یہ کھلی مسلح جنگ کے موقع پر اگردشمن کوئی زیادتی کرے اور غلط ہتھکنڈوں سے کام لے تو اس کے مقابلے میں مسلمان بھی ویسی ہی جوابی کاروائی کرسکتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: 


’’اے ایمان والو، عدل پر قائم رہنے والے بنو۔ اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس طرح نہ ابھارے کہ تم عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو یہ تقویٰ سے قریب تر ہے‘‘۔ (المائدہ 8:5)

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2001

 

مصنف : ڈاکٹر محمد فاروق خان
Uploaded on : Sep 10, 2016
4403 View