غیبت کے بارے میں حکم - امین احسن اصلاحی

غیبت کے بارے میں حکم

  

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

 (مَا جَاءَ فِی الْغِیْبَۃِ)

 

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَیَّادٍ أَنَّ الْمُطَّلِبَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَنْطَبَ الْمَخْزُوْمِیَّ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا الْغِیْبَۃُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنْ تَذْکُرَ مِنَ الْمَرْءِ مَا یَکْرَہُ أَنْ یَّسْمَعَ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَإِنْ کَانَ حَقًّا؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا قُلْتَ بَاطِلًا فَذٰلِکَ الْبُھْتَانُ.
’’مطلب بن عبداللہ مخزومی نے خبر دی کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ غیبت کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی شخص کا اس طرح سے ذکر کرو کہ اگر وہ سنے تو برا جانے۔ اس نے پوچھا یارسول اللہ، اگر بات سچی ہو تو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم باطل کہو گے تب تو وہ بہتان ہے۔‘‘

وضاحت

مطلب یہ ہے کہ اگر صحیح بات ہو تب غیبت ہے۔ غیبت کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ بات پیٹھ پیچھے ہو رہی ہو، آدمی کے سامنے نہیں۔ گویا پیٹھ پیچھے کسی شخص کی ایسی بات کا ذکر غیبت ہے جس کو وہ سنے تو اس کو بری لگے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اخلاقی جرأت ہے تو اس کے منہ پر کہیں۔ اگر نہیں کر سکتے تو پیٹھ پیچھے اس کا گوشت ہی کھانا ہوا۔ البتہ ایک چیز مستثنیٰ ہے۔ لیڈر لوگ پبلک میں آتے ہیں۔ اپنی زندگی کو نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اپنے مسلک کو ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور اتباع کی دعوت دیتے ہیں تو ان کی خرابیاں لوگوں پر واضح کرنی چاہییں۔ یہ دین کی خدمت ہے۔ لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ لغو آدمی ہے جو لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ یہ بتانا غیبت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس کی مثالیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں ملتی ہیں۔

(تدبر حدیث ۵۰۷)

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2015
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Mar 04, 2016
2514 View