مقاصد شریعت کے ابدی اور احکام وقوانین کے عارضی ہونے کا نظریہ (1) - عمار خان ناصر

مقاصد شریعت کے ابدی اور احکام وقوانین کے عارضی ہونے کا نظریہ (1)

 

معاصر مسلم فکر اسلام میں اجتہاد کی اہمیت، اس کے دائرہ کار، اس کو بروے کار لانے کے عملی طریقہ اور پیش آمدہ اجتہاد طلب مسائل اور مشکلات کے حوالے سے چند در چند فکری اور عملی سوالات سے نبرد آزما ہے جن میں سے ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں قانون ساز ی کے لیے عمومی نوعیت کے رہنما اصولوں کے علاوہ جو متعین احکام اور قوانین بیان ہوئے ہیں، ان کی قدر وقیمت کیا ہے، ان کے ساتھ کس نوعیت کی وابستگی شارع کو مطلوب ہے اور ثبات وتغیر کے پہلو سے ان قوانین کے ظاہری ڈھانچے کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ اس ضمن میں جو احکام خصوصیت سے زیر بحث ہیں، ان میں نکاح وطلاق کے معاملات میں شوہر اور بیوی کے حقوق میں امتیاز، وراثت کے حصوں کی متعین تقسیم اور معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن کریم کی بیان کردہ سزائیں شامل ہیں۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ قوانین اپنے ظاہر کے لحاظ سے ابدی حیثیت کے حامل نہیں، بلکہ محض قانونی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص معاشرتی تناظر میں شریعت کے ان ابدی مقاصد و مصالح کو عملی طور پر کیسے متشکل کیا گیا جو ان قوانین کے پس منظرمیں کارفرما ہیں، لیکن بذات خود ان قوانین کو ہر دور میں بعینہ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے مابین کوئی نئی تقسیم وجود میں لائی جا سکتی، ترکے میں ورثہ کے حصوں کے تناسب کو بدلا جا سکتا اور قتل، زنا، چوری اور دیگر معاشرتی جرائم پر قرآن کی بیان کردہ سزاوں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔
زیر بحث نقطہ نظر کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ شارع کے بیان کردہ کسی بھی حکم کے بارے میں اس کی اصل منشا کو جاننے کے لیے نصوص کے الفاظ اور کلام کے داخلی سیاق وسباق کے علاوہ حکم کے تاریخی سیاق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ تاریخی سیاق میں وہ سماجی اور تمدنی احوال وظروف بھی شامل ہیں جن میں کوئی حکم دیا گیا، مخاطب کے وہ ذہنی سوالات واشکالات بھی جو دراصل متکلم کو دعوت کلام دیتے ہیں اور وہ محرکات وعوامل اور پیش نظر مصالح ومقاصد بھی جو قانون کو ایک مخصوص شکل دینے کا سبب اور داعی بنے۔ گویا کسی بھی حکم کی نوعیت، قدر وقیمت اور اہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ نصوص کے الفاظ اور سیاق کلام میں موجود داخلی دلالتوں پر غور کر لیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول اور سماجی تناظر کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جو ان نصوص کے فہم کے لیے خارجی سیاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بیان کردہ احکام کو ان کے تاریخی سیاق میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نئے اور اچھوتے حکم کے طور پر نہیں دیے گئے تھے، بلکہ ان کے لیے عرب معاشرت میں پہلے سے رائج قوانین اور عادات کو خام مواد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور انھیں افراط وتفریط سے پاک کر کے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ممکن حد تک ایک متوازن صورت دے دی گئی تھی۔ چونکہ یہ قوانین نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب کے مخصوص سماجی وتمدنی پس منظر میں تشکیل پائے تھے اور ان کی اصلاح وترمیم میں معاشرتی ارتقا کے اس مخصوص مرحلے کو ملحوظ رکھا گیا تھا جس سے عرب معاشرہ اس وقت گزر رہا تھا، اس لیے ان قوانین کی relevance اور عملی افادیت کو اصلاً اس مخصوص سماجی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جبکہ اس سے مختلف تہذیبی وسماجی پس منظر اور معاشرتی ارتقا کے اگلے مراحل میں ان قوانین کی ظاہری شکل وصورت پر اصرار کرنے کے بجائے شریعت کے عمومی رہنما اصولوں کی روشنی میں، جنھیں عام طور پر ”مقاصد شریعت“ کا عنوان دیا جاتا ہے، قوانین کی ظاہری شکل وصورت ازسرنو وضع کی جانی چاہیے جو ہم عصر سماجی تناظرمیں اصل مقصد کے لحاظ سے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔
یہ استدلال ذرا باریک بینی سے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ خارجی سیاق کے کسی کلام کے فہم میں معاون اور مددگار ہونے کے تین الگ الگ پہلو ہو سکتے ہیں:
ایک یہ کہ وہ اس سوال یا اس تقاضے کو واضح کرتا ہے جس کے جواب میں کلام صادر ہوا ہے اور جس کو سمجھے بغیر کلام کا صحیح محل اور متکلم کا اصل منشا واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز بعض اوقات کلام کے اندر صراحتاً یا اشارتاً بیان ہوئی ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے لیے خارجی سیاق سے مدد لینا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ان عورتوں کے بیان میں جن سے نکاح حرام کیا گیا ہے، فرمایا ہے کہ وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم، یعنی تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں تمھارے لیے حرام ہیں۔ یہاں صلبی بیٹوں کی تصریح کا محل سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اہل عرب کے ہاں متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کو بھی حرام سمجھا جاتا تھا اور قرآن اس تصریح سے یہ واضح کرنا چاہ رہا ہے کہ اس کے نزدیک صرف حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن نے عرب معاشرت کے رسوم اور قوانین کی اصلاح کرکے ان کو جو نئی شکل دی، ان کی معنویت کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لیے کہ جاہلی معاشرے کی کون سی قدروں اور رسموں کو قرآن نے الٰہی منشا کے مطابق پا کر انھیں برقرار رکھا اور ان میں کہاں کہاں اور کس حد تک اصلاح وترمیم کی، تاریخی تناظر میں اس دور کی عرب معاشرت کو سامنے رکھا جائے۔ اس تقابلی مطالعے کے لیے ظاہر ہے کہ خود قرآن میں موجود تصریحات اور اشارات کے علاوہ خارجی سیاق کو واضح کرنے والے دیگر تاریخی مآخذ سے بھی مدد لی جائے گی۔
ؒتیسرا پہلو یہ ہے کہ خارجی سیاق کی روشنی میں یہ طے کیا جائے کہ جو حکم دیا گیا ہے، اس کی اہمیت اور قدر وقیمت آیا ابدی اور دائمی ہے یا وقتی اور عارضی۔
ان میں سے پہلے دو پہلووں سے خارجی سیاق کا کلام کی تفہیم میں معاون ہونا واضح ہے، البتہ اس کا تیسرا پہلو جو زیر بحث استدلال میں بیان ہوا ہے، بحث طلب ہے، اس لیے کہ یہاں حکم کے تاریخی وسماجی تناظر سے نفس حکم کی تفہیم میں نہیں، بلکہ اس امر کے ضمن میں استدلال کیا جا رہا ہے کہ صاحب حکم کے نزدیک اس حکم کی نوعیت کیا ہے اور آیا وہ اسے ایک ابدی حکم کی حیثیت سے بیان کر رہا ہے یا وقتی اور عارضی حکم کی حیثیت سے۔ یہ نکتہ اس لیے بحث طلب ہے کہ استدلال میں حکم کے الفاظ اور داخلی قرائن اور دلالتوں کے بجائے اس کے خارجی سیاق کو حکم کی نوعیت واہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کا بنیادی وسیلہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ عقلی طور پر خارجی سیاق اس امر پر دلالت کرنے کی فی نفسہ صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اس لیے کہ محض اس بات سے کہ شارع نے کوئی حکم ایک مخصوص دور میں دیا تھا اور اس کے اولین مخاطب ایک مخصوص معاشرے کے لوگ تھے، یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اس حکم میں لازماً اس مخصوص سماج ہی کی ضروریات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور ابدی طور پر اس کی پابندی مطلوب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلی طور پر جہاں یہ امکان موجود ہے کہ شارع نے اس حکم میں اپنے اولین مخاطبین ہی کے حالات کی رعایت ملحوظ رکھی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس کی پابندی کو لازم نہ ٹھہرایا ہو، وہاں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ہمہ گیر اور کامل علم کی بنا پر حکم کی شکل متعین کرتے ہوئے مستقبل کے جملہ امکانات اور احوال و ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا ہو اور حکم کو آنے والی تمام نسلوں کے لیے بھی واجب الاطاعت قرار دیا ہو۔ ان دو ممکنہ طریقوں میں سے شارع نے کون سا طریقہ اختیار کیا ہے، خارجی سیاق بذات خود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے اور زیر بحث استدلال میں احکام شرعیہ کے تاریخی سیاق سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، وہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ایک اور مقدمہ استدلال میں شامل کیا جائے، یعنی یہ کہ قانون، خواہ وہ محض انسانی فہم اور بصیرت کو بروے کار لانے کا نتیجہ ہو یا اس کو خدا کے علم اور فیصلے پر مبنی ہونے کی سند بھی حاصل ہو، ہر حال میں مخصوص سماجی وتمدنی احوال سے پیدا ہوتا اور انھی کے تابع ہوتا ہے، اور یہ کہ قانون کی اخلاقی اور افادی بنیاد ہی وہ قدر ہے جو ابدی اور غیر متغیر رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ قوانین کی صورت میں انسانوں پر واجبات اور پابندیاں عائد کرنے کا عمل قانون کے مقصد کو عملی صورت میں متشکل کرنے کے لیے محض ایک عارضی ذریعے اور وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر میرا یہ طالب علمانہ تجزیہ درست ہے تو اس سے زیر بحث استدلال کی نوعیت میں ایک جوہری فرق واقع ہو جاتا ہے، اس لیے کہ استدلال کااصل ہدف کسی حکم کے ابدی یا وقتی ہونے کے بارے میں شارع کی منشا کو متعین کرنا ہے، جبکہ اس مقصد کے لیے نصوص کے الفاظ اور سیاق وسباق سے ہٹ کر تاریخی سیاق کے نام سے جس چیز کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، وہ حقیقت میں منشاے کلام کے زیر بحث پہلو یعنی حکم کی ابدیت یا غیر ابدیت کو متعین کرنے کا کوئی ایسا قرینہ ہی نہیں جس سے فی نفسہ کوئی ایک یا دوسرا نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔ اس طرح زیر بحث موقف اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلام کے غیر منفک قرائن سے اخذ ہونے والا کوئی نتیجہ نہیں، بلکہ یہ حقیقتاً پیشگی فرض کیے جانے والے ایک مستقل بالذات عقلی مقدمے پر منحصر قرار پاتا ہے۔
اس ضمن میں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود اس مقدمے کا ماخذ کیا ہے؟ آیا یہ کتاب وسنت کے نصوص پر مبنی ہے یا ان سے مجرد ہو کر خالص عقلی قیاسات کی بنیاد پر فرض کیا گیا ہے؟ اگر دوسری صورت ہے تو اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ شارع کی منشا متعین کرنے کے لیے کتاب وسنت کے نصوص کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایک خالص عقلی مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ آیا نصوص اس معاملے میں خاموش ہیں اور ان سے اس ضمن میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی؟ اگر مفروضہ یہ ہے تو اسے قرآن مجیدکے واضح اور صریح بیانات کو نظر انداز کیے بغیر قبول کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
قرآن مجید میں یہ بات مختلف پہلووں سے واضح کی گئی ہے کہ کسی معاملے میں خدا کی طرف سے کوئی متعین حکم آجانے کے بعد انسانوں کے لیے اس کی پابندی لازم ہو جاتی ہے اور وہ اس سے گریز کا اختیار نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر تورات میں قاتل سے خون بہا لے کر اسے معاف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، تاہم قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس موقع پر کیا جانے والا تبصرہ قابل توجہ ہے۔ فرمایا ہے کہ ذالک تخفیف من ربکم ورحمۃ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
ایک دوسرے موقع پر قرآن نے یتیموں کے سرپرستوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ یتیموں کے مال کا الگ حساب کتاب رکھنے میں دقت محسوس کریں تو اسے اپنے مال میں ملا سکتے ہیں، البتہ بد نیتی سے اس کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں فرمایا ہے کہ ولو شاء اللہ لاعنتکم، یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم پر لازم کر دیتا کہ یتیموں کے مال کو الگ ہی رکھو اور اس سے تم مشقت میں پڑ جاتے۔ یہ جملہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والا حکم واجب الاطاعت ہے اور اگر اللہ نے نرمی اور سہولت پر مبنی کوئی حکم دیا ہے تو اسے خدا کی عنایت سمجھنا چاہیے۔
خدا کے ’حکم‘ کی یہ حیثیت تورات کے احکام کے حوالے سے بھی قرآن مجید کے نصوص سے واضح ہوتی ہے اور خود قرآن کے اپنے بیان کردہ احکام کے حوالے سے بھی۔ چنانچہ تورات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، وہ اس کے پابند ٹھہرائے گئے تھے۔ حضرت موسیٰ سے کہا گیا تھاکہ فخذھا بقوۃ وامر قومک یاخذوا باحسنھا۔ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ میں ان کے انبیا اور قاضی اسی کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب ایک موقع پر یہود نے زنا کے ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے تورات میں موجود حکم پر عمل کرنے کے بجائے منافقانہ غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کی اس منافقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فیصلے کے لیے آپ کی طرف کیونکر رجوع کرتے ہیں، جبکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: اے اللہ، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا۔
بنی اسرائیل پر ان کی سرکشی کی پاداش میں بہت سی حلال چیزیں بھی حرام کر دی گئی تھیں اور زیادہ سخت قوانین کی پابندی لازم قرار دے دی گئی تھی۔ قرآن مجید نے واضح کیا ہے کہ ان احکام اور پابندیوں کے بارے میں یہ واضح ہونے کے باوجود کہ یہ ایک مخصوص دور میں بنی اسرائیل کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے سرکشی کے رویے پر مبنی تھیں، بنی اسرائیل کو وقت گزرنے کے ساتھ ان احکام میں ازخود کوئی تبدیلی یا لچک پیدا کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا، تا آنکہ اللہ کا کوئی پیغمبر ہی اللہ کی طرف سے حکم میں تبدیلی کی خبر دے۔ چنانچہ یہ حضرت عیسیٰ ہی کا اختیار تھا کہ وہ خدا کی اجازت سے ان پر حرام کردہ بعض چیزوں کو حلال قرار دیں۔ اسی طرح یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا منصب تھا کہ آپ اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل پر لازم کیے گئے ناقابل تحمل قوانین کا بوجھ ان سے اٹھا دینے کی ذمہ داری انجام دیں۔
قرآن مجید نے خود اپنے احکام کے بارے میں بھی یہی بات واضح کی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں بہت سے احکام کے بارے میں یہ تصریح موجود ہے کہ وہ معاشرے کے معروف یعنی دستور اور رواج پر مبنی ہیں۔ مثلاً بیویوں کے مہر، نان ونفقہ، بچے کو دودھ پلانے کی اجرت، طلاق کی صورت میں بیوی کو دیے جانے والے تحائف، خواتین کے اپنے حق نکاح کو استعمال کرنے اور یتیم کے مال میں اس کے سرپرست کے حق کے بارے میں یہی فرمایا گیا ہے کہ ان کا فیصلہ معروف کے مطابق کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے احکام کے بارے میں متعین قانون سازی کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے اور ان قوانین کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں دیت اور وراثت کے احکام بطور خاص قابل توجہ ہیں:
قرآن مجید نے سورئہ نساءمیں قتل خطا کے احکام بیان کرتے ہوئے مقتول کے ورثہ کو دیت دینے اور کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔یہاں دیت کی مقدار کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی، بلکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فاتباع بالمعروف کہہ کر اس معاملے کو دستور اور رواج کے سپرد کر دیا ہے، لیکن اس بات کی وضاحت کو یہاں موضوع بنایا گیا ہے کہ دیت کی ادائیگی کس صورت میں ضروری ہے اور کس صورت میں نہیں، چنانچہ کہا گیا ہے کہ مقتول مسلمان کا تعلق اگر دار الاسلام سے یا کسی معاہد قوم سے ہو تو دیت کی ادائیگی لازم ہے، لیکن اگر وہ کسی دشمن گروہ کا فرد تھا تو دیت کے بجائے صرف کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا۔ اسی طرح کفارے کی مختلف صورتوں کی بھی باقاعدہ وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کفارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہوگا اور اگر یہ میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے۔
ابتدا میں مرنے والے پر یہ لازم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مال میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کر دے، لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے والدین، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے خود مقرر فرما دیے۔ ان دونوں احکام کے بیان کا اسلوب ایک دوسرے سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ چنانچہ پہلے حکم میں ورثہ کے حصص متعین نہیں کیے گئے اور صرف یہ تلقین کی گئی ہے کہ دستور اور رواج کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت کی جائے، بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کی وصیت میں کسی جانب داری یا حق تلفی کا پہلو دکھائی دے تو اس میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے ورثہ کے حصص خود بیان فرمائے ہیں، وہاں اس کو اللہ تعالیٰ کی وصیت قرار دیا ہے جس میں کسی زیادتی یا جانب داری کا خدشہ نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ ان کی حیثیت ’فریضة من اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض کی ہے جس سے انحراف یا تجاوز کرنے پر دوزخ کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔
اب اگر شارع کو شریعت کے ظاہری احکام کی پیروی مطلوب نہیں اور ان کی حیثیت محض وقتی ہدایات یا نظائر کی ہے تو قرآن مجید کے بعض احکام کو معاشرے کے معروف اور دستور پر مبنی قرار دینے جبکہ بعض کو متعین صورت میں بیان کرنے اور پھر ان کی پابندی کی پرزور تاکید کرنے کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے؟
قرآن کے احکام کی ابدی حیثیت تورات کے احکام اور قرآن مجید میں دی جانے والی شریعت کے مابین پائے جانے والے ایک بنیادی فرق سے بھی واضح ہوتی ہے۔ تورات کے ساتھ قرآن مجید کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ تورات کے برعکس قرآن مجید میں شریعت کو قصداً بہت مختصر اور محدود رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جن معاملات کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے ازخود بیان نہیں کیا، ان میں سوالات اور استفسارات کے ذریعے سے خدا کی منشا کو متعین طور پر معلوم کرنے سے گریز کیا جائے۔ سورئہ مائدہ میں ارشاد ہے:
”اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تم پر واضح کر دی گئیں تو تمھیں مصیبت میں ڈال دیں گی۔ اور جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمھارے لیےواضح کر دی جائیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بڑے تحمل والا ہے۔“ (آیت ۱۰۱)
یہ آیت اس معاملے میں صریح نص کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام کی فی نفسہ پابندی لازم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں شریعت کو محض اس حد تک محدود رکھنے کا اہتمام کیا ہے جو اس کے پیش نظر مقاصد کے لحاظ سے ہر دور کے لیے موزوں، مناسب اور مطلوب ہے۔ ورنہ اگر قرآن کے بیان کردہ قوانین محض وقتی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کو مختصر اور محدود رکھنے اور مسکوت عنہ امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی منشا معلوم کرنے کے لیے سوال کرنے کی ممانعت بالکل بے محل اور ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔
(جاری)

-----------------------------

 

With thanks to MUKAALMA.COM

تحریر/اشاعت 23 اکتوبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Oct 24, 2016
3030 View