شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد - عمار خان ناصر

شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد

[یہ مقالہ ۲۸ تا ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۷ کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ اقبالیات کے زیر اہتمام ’’اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے قومی سیمینار کے لیے لکھا گیا۔]

 

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم. الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خاتم المرسلین وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین. اما بعد.
اجتہاد کا بنیادی مقصد زندگی اور اس کے معاملات کو قرآن وسنت کے مقرر کردہ حدود میں اور ان کی منشا کے مطابق استوار کرنا ہے۔ اس ضمن میں شارع کی منشا کو عملی حالات پر منطبق کرنے اور بدلتے ہوئے حالات اور ارتقا پذیر انسانی سماج کا رشتہ قرآن وسنت کی ہدایت کے ساتھ قائم رکھنے کا وظیفہ بنیادی طور پر انسانی فہم ہی انجام دیتا ہے اور ایک طرف قرآن وسنت کی منشا اور دوسری طرف پیش آمدہ مخصوص صورت حال یا مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور ان دونوں کے باہمی تعلق کو متعین کر کے ایک مخصوص قانونی حکم لاگو کرنے کی اسی علمی وفکری کاوش کو اصطلاح میں ’اجتہاد‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
معاصر مسلم فکر اسلام میں اجتہاد کی اہمیت، اس کے دائرۂ کار، اس کو بروے کار لانے کے عملی طریقہ اور پیش آمدہ اجتہاد طلب مسائل اور مشکلات کے حوالے سے چند در چند فکری اور عملی سوالات سے نبرد آزما ہے جن میں سے ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں قانون ساز ی کے لیے عمومی نوعیت کے رہنما اصولوں کے علاوہ جو متعین احکام اور قوانین بیان ہوئے ہیں، ان کی قدر وقیمت کیا ہے، ان کے ساتھ کس نوعیت کی وابستگی شارع کو مطلوب ہے اور ثبات وتغیر کے پہلو سے ان قوانین کے ظاہری ڈھانچے کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ اس ضمن میں جو احکام خصوصیت سے زیر بحث ہیں، ان میں نکاح وطلاق کے معاملات میں شوہر اور بیوی کے حقوق میں امتیاز، وراثت کے حصوں کی متعین تقسیم اور معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن کریم کی بیان کردہ سزائیں شامل ہیں۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ قوانین اپنے ظاہر کے لحاظ سے ابدی حیثیت کے حامل نہیں، بلکہ محض قانونی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص معاشرتی تناظر میں شریعت کے ان ابدی مقاصد و مصالح کو عملی طور پر کیسے متشکل کیا گیا جو ان قوانین کے پس منظرمیں کارفرما ہیں، لیکن بذات خود ان قوانین کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے مابین کوئی نئی تقسیم وجود میں لائی جا سکتی، ترکے میں ورثہ کے حصوں کے تناسب کو بدلا جا سکتا اور قتل، زنا، چوری اور دیگر معاشرتی جرائم پر قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ زیر نظر مقالے میں اسی زاویۂ نگاہ کے استدلال اور اس کے ساتھ موضوع سے متعلق چند دیگر پہلووں کا ایک طالب علمانہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
کسی بھی نقطۂ نظر کی صحت وصداقت کو جانچنے کا طریقہ ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس علمی استدلال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے جو اس کے حق میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات تمہیداً واضح رہنی چاہیے کہ زیر بحث نقطۂ نظر کی ترجمانی مختلف اہل فکر نے مختلف زاویوں سے کی ہے اور ا س کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کے shades بھی مختلف ہیں۔ یہاں ان سب کا فرداً فرداً جائزہ لینا ممکن نہیں، چنانچہ میں نے اپنے فہم کی حد تک اس بحث کے بنیادی نکتے کومتعین کر کے اسی کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اگر میرا فہم غلط ہے یا اس میں استدلال کا کوئی قابل لحاظ پہلو اپنی صحیح جگہ نہیں پا سکا تو اسے ایک طالب علم کے علم اور مطالعہ کی کمی پر محمول کرتے ہوئے، جس کے لیے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں، صرف نظر کر لیا جائے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، زیر بحث نقطۂ نظر کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ شارع کے بیان کردہ کسی بھی حکم کے بارے میں اس کی اصل منشا کو جاننے کے لیے نصوص کے الفاظ اور کلام کے داخلی سیاق وسباق کے علاوہ حکم کے تاریخی سیاق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ تاریخی سیاق میں وہ سماجی اور تمدنی احوال وظروف بھی شامل ہیں جن میں کوئی حکم دیا گیا، مخاطب کے وہ ذہنی سوالات واشکالات بھی جو دراصل متکلم کو دعوت کلام دیتے ہیں اور وہ محرکات وعوامل اور پیش نظر مصالح ومقاصد بھی جو قانون کو ایک مخصوص شکل دینے کا سبب اور داعی بنے۔ گویا کسی بھی حکم کی نوعیت، قدر وقیمت اور اہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ نصوص کے الفاظ اور سیاق کلام میں موجود داخلی دلالتوں پر غور کر لیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول اور سماجی تناظر کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جو ان نصوص کے فہم کے لیے خارجی سیاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بیان کردہ احکام کو ان کے تاریخی سیاق میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نئے اور اچھوتے حکم کے طور پر نہیں دیے گئے تھے، بلکہ ان کے لیے عرب معاشرت میں پہلے سے رائج قوانین اور عادات کو خام مواد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور انھیں افراط وتفریط سے پاک کر کے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ممکن حد تک ایک متوازن صورت دے دی گئی تھی۔ چونکہ یہ قوانین نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب کے مخصوص سماجی وتمدنی پس منظر میں تشکیل پائے تھے اور ان کی اصلاح وترمیم میں معاشرتی ارتقا کے اس مخصوص مرحلے کو ملحوظ رکھا گیا تھا جس سے عرب معاشرہ اس وقت گزر رہا تھا، اس لیے ان قوانین کی relevance اور عملی افادیت کو اصلاً اس مخصوص سماجی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جبکہ اس سے مختلف تہذیبی وسماجی پس منظر اور معاشرتی ارتقا کے اگلے مراحل میں ان قوانین کی ظاہری شکل وصورت پر اصرار کرنے کے بجائے شریعت کے عمومی رہنما اصولوں کی روشنی میں، جنھیں عام طور پر ’’مقاصد شریعت‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے، قوانین کی ظاہری شکل وصورت ازسرنو وضع کی جانی چاہیے جو ہم عصر سماجی تناظرمیں اصل مقصد کے لحاظ سے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔
یہ استدلال ذرا باریک بینی سے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ خارجی سیاق کے کسی کلام کے فہم میں معاون اور مددگار ہونے کے تین الگ الگ پہلو ہو سکتے ہیں:
ایک یہ کہ وہ اس سوال یا اس تقاضے کو واضح کرتا ہے جس کے جواب میں کلام صادر ہوا ہے اور جس کو سمجھے بغیر کلام کا صحیح محل اور اس کا Stress واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز بعض اوقات کلام کے اندر صراحتاً یا اشارتاً بیان ہوئی ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے لیے خارجی سیاق سے مدد لینا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ان عورتوں کے بیان میں جن سے نکاح حرام کیا گیا ہے، فرمایا ہے کہ ’وَحَلَآءِلُ اَبْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ‘، ۱؂ یعنی تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں تمھارے لیے حرام ہیں۔ یہاں صلبی بیٹوں کی تصریح کا محل سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اہل عرب کے ہاں متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کو بھی حرام سمجھا جاتا تھا اور قرآن اس تصریح سے یہ واضح کرنا چاہ رہا ہے کہ اس کے نزدیک صرف حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن نے عرب معاشرت کے رسوم اور قوانین کی اصلاح کرکے ان کو جو نئی شکل دی، ان کی معنویت کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لیے کہ جاہلی معاشرے کی کون سی قدروں اور رسموں کو قرآن نے الٰہی منشا کے مطابق پا کر انھیں برقرار رکھا اور ان میں کہاں کہاں اور کس حد تک اصلاح وترمیم کی، تاریخی تناظر میں اس دور کی عرب معاشرت کو سامنے رکھا جائے۔ اس تقابلی مطالعے کے لیے ظاہر ہے کہ خود قرآن میں موجود تصریحات اور اشارات کے علاوہ خارجی سیاق کو واضح کرنے والے دیگر تاریخی مآخذ سے بھی مدد لی جائے گی۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ خارجی سیاق کی روشنی میں یہ طے کیا جائے کہ جو حکم دیا گیا ہے، اس کی اہمیت اور قدر وقیمت آیا ابدی اور دائمی ہے یا وقتی اور عارضی۔
ان میں سے پہلے دو پہلووں سے خارجی سیاق کا کلام کی تفہیم میں معاون ہونا واضح ہے، البتہ اس کا تیسرا پہلو جو زیر بحث استدلال میں بیان ہوا ہے، بحث طلب ہے، اس لیے کہ یہاں حکم کے تاریخی وسماجی تناظر سے نفس حکم کی تفہیم میں نہیں، بلکہ اس امر کے ضمن میں استدلال کیا جا رہا ہے کہ صاحب حکم کے نزدیک اس حکم کی نوعیت کیا ہے اور آیا وہ اسے ایک ابدی حکم کی حیثیت سے بیان کر رہا ہے یا وقتی اور عارضی حکم کی حیثیت سے۔ یہ نکتہ اس لیے بحث طلب ہے کہ استدلال میں حکم کے الفاظ اور داخلی قرائن اور دلالتوں کے بجائے اس کے خارجی سیاق کو حکم کی نوعیت واہمیت کے بارے میں شارع کی منشا جاننے کا بنیادی وسیلہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ عقلی طور پر خارجی سیاق اس امر پر دلالت کرنے کی فی نفسہٖ صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اس لیے کہ محض اس بات سے کہ شارع نے کوئی حکم ایک مخصوص دور میں دیا تھا اور اس کے اولین مخاطب ایک مخصوص معاشرے کے لوگ تھے، یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اس حکم میں لازماً اس مخصوص سماج ہی کی ضروریات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور ابدی طور پر اس کی پابندی مطلوب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلی طور پر جہاں یہ امکان موجود ہے کہ شارع نے اس حکم میں اپنے اولین مخاطبین ہی کے حالات کی رعایت ملحوظ رکھی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس کی پابندی کو لازم نہ ٹھہرایا ہو، وہاں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ہمہ گیر اور کامل علم کی بنا پر حکم کی شکل متعین کرتے ہوئے مستقبل کے جملہ امکانات اور احوال و ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا ہو اور حکم کو آنے والی تمام نسلوں کے لیے بھی واجب الاطاعت قرار دیا ہو۔ ان دو ممکنہ طریقوں میں سے شارع نے کون سا طریقہ اختیار کیا ہے، خارجی سیاق بذات خود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے اور زیر بحث استدلال میں احکام شرعیہ کے تاریخی سیاق سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، وہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ایک اور مقدمہ استدلال میں شامل کیا جائے، یعنی یہ کہ قانون، خواہ وہ محض انسانی فہم اور بصیرت کو بروے کار لانے کا نتیجہ ہو یا اس کو خدا کے علم اور فیصلے پر مبنی ہونے کی سند بھی حاصل ہو، ہر حال میں مخصوص سماجی وتمدنی احوال سے پیدا ہوتا اور انھی کے تابع ہوتا ہے، اور یہ کہ قانون کی اخلاقی اور افادی بنیاد ہی وہ قدر ہے جو ابدی اور غیر متغیر رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ قوانین کی صورت میں انسانوں پر واجبات اور پابندیاں عائد کرنے کا عمل قانون کے مقصد کو عملی صورت میں متشکل کرنے کے لیے محض ایک عارضی ذریعے اور وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر میرا یہ طالب علمانہ تجزیہ درست ہے تو اس سے زیر بحث استدلال کی نوعیت میں ایک جوہری فرق واقع ہو جاتا ہے، اس لیے کہ استدلال کااصل ہدف کسی حکم کے ابدی یا وقتی ہونے کے بارے میں شارع کی منشا کو متعین کرنا ہے، جبکہ اس مقصد کے لیے نصوص کے الفاظ اور سیاق وسباق سے ہٹ کر تاریخی سیاق کے نام سے جس چیز کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، وہ حقیقت میں منشاے کلام کے زیر بحث پہلو یعنی حکم کی ابدیت یا غیر ابدیت کو متعین کرنے کا کوئی ایسا قرینہ ہی نہیں جس سے فی نفسہٖ کوئی ایک یا دوسرا نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔ اس طرح زیر بحث موقف اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلام کے غیر منفک قرائن سے اخذ ہونے والا کوئی نتیجہ نہیں، بلکہ یہ حقیقتاً پیشگی فرض کیے جانے والے ایک مستقل بالذات عقلی مقدمے پر منحصر قرار پاتا ہے۔
اگر میرا یہ طالب علمانہ تجزیہ درست ہے تو پھر اس ضمن میں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود اس مقدمے کا ماخذ کیا ہے؟ آیا یہ کتاب وسنت کے نصوص پر مبنی ہے یا ان سے مجرد ہو کر خالص عقلی قیاسات کی بنیاد پر فرض کیا گیا ہے؟ اگر دوسری صورت ہے تو اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ شارع کی منشا متعین کرنے کے لیے کتاب وسنت کے نصوص کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایک خالص عقلی مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ آیا نصوص اس معاملے میں خاموش ہیں اور ان سے اس ضمن میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی؟ اگر مفروضہ یہ ہے تو اسے قرآن مجیدکے واضح اور صریح بیانات کو نظر انداز کیے بغیر قبول کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
قرآن مجید میں یہ بات مختلف پہلووں سے واضح کی گئی ہے کہ کسی معاملے میں خدا کی طرف سے کوئی متعین حکم آجانے کے بعد انسانوں کے لیے اس کی پابندی لازم ہو جاتی ہے اور وہ اس سے گریز کا اختیار نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر تورات میں قاتل سے خون بہا لے کر اسے معاف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، تاہم قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس موقع پر کیا جانے والا تبصرہ قابل توجہ ہے۔ فرمایا ہے کہ ’ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ‘۔۲؂ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
ایک دوسرے موقع پر قرآن نے یتیموں کے سرپرستوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ یتیموں کے مال کا الگ حساب کتاب رکھنے میں دقت محسوس کریں تو اسے اپنے مال میں ملا سکتے ہیں، البتہ بد نیتی سے اس کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں فرمایا ہے کہ ’وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ‘ ۳؂ یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم پر لازم کر دیتا کہ یتیموں کے مال کو الگ ہی رکھو اور اس سے تم مشقت میں پڑ جاتے۔ یہ جملہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والا حکم واجب الاطاعت ہے اور اگر اللہ نے نرمی اور سہولت پر مبنی کوئی حکم دیا ہے تو اسے خدا کی عنایت سمجھنا چاہیے۔
خدا کے ’حکم‘ کی یہ حیثیت تورات کے احکام کے حوالے سے بھی قرآن مجید کے نصوص سے واضح ہوتی ہے اور خود قرآن کے اپنے بیان کردہ احکام کے حوالے سے بھی۔ چنانچہ تورات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، وہ اس کے پابند ٹھہرائے گئے تھے۔ حضرت موسیٰ سے کہا گیا تھاکہ ’فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا‘ ۴؂ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ میں ان کے انبیا اور قاضی اسی کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند تھے: ’یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْْہِ شُہَدَآءَ‘۔ ۵؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب ایک موقع پر یہود نے زنا کے ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے تورات میں موجود حکم پر عمل کرنے کے بجائے منافقانہ غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کی اس منافقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’وَکَیْْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرَاۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ‘ ۔۶؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: ’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمْرَکَ اِذْ اَمَاتُوْہُ‘۷؂ ۔
بنی اسرائیل پر ان کی سرکشی کی پاداش میں بہت سی حلال چیزیں بھی حرام کر دی گئی تھیں اور زیادہ سخت قوانین کی پابندی لازم قرار دے دی گئی تھی۔ قرآن مجید نے واضح کیا ہے کہ ان احکام اور پابندیوں کے بارے میں یہ واضح ہونے کے باوجود کہ یہ ایک مخصوص دور میں بنی اسرائیل کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے سرکشی کے رویے پر مبنی تھیں، بنی اسرائیل کو وقت گزرنے کے ساتھ ان احکام میں ازخود کوئی تبدیلی یا لچک پیدا کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا، تا آنکہ اللہ کا کوئی پیغمبر ہی اللہ کی طرف سے حکم میں تبدیلی کی خبر دے۔ چنانچہ یہ حضرت عیسیٰ ہی کا اختیار تھا کہ وہ خدا کی اجازت سے ’وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْْکُمْ‘۸؂ کا اعلان کریں۔ اسی طرح یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا منصب تھا کہ آپ ’وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْْ‘۹؂ کی ذمہ داری انجام دیں۔
قرآن مجید نے خود اپنے احکام کے بارے میں بھی یہی بات واضح کی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں بہت سے احکام کے بارے میں یہ تصریح موجود ہے کہ وہ معاشرے کے معروف یعنی دستور اور رواج پر مبنی ہیں۔ مثلاً بیویوں کے مہر، ۱۰؂ نان ونفقہ،۱۱؂ بچے کو دودھ پلانے کی اجرت،۱۲؂ طلاق کی صورت میں بیوی کو دیے جانے والے تحائف،۱۳؂ خواتین کے اپنے حق نکاح کو استعمال کرنے۱۴؂ اور یتیم کے مال میں اس کے سرپرست کے حق ۱۵؂ کے بارے میں یہی فرمایا گیا ہے کہ ان کا فیصلہ معروف کے مطابق کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے احکام کے بارے میں متعین قانون سازی کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے اور ان قوانین کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں دیت اور وراثت کے احکام بطور خاص قابل توجہ ہیں:
قرآن مجید نے سورۂ نساء میں قتل خطا کے احکام بیان کرتے ہوئے مقتول کے ورثہ کو دیت دینے اور کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔۱۶؂ یہاں دیت کی مقدار کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی، بلکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ’فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘۱۷؂ کہہ کر اس معاملے کو دستور اور رواج کے سپرد کر دیا ہے، لیکن اس بات کی وضاحت کو یہاں موضوع بنایا گیا ہے کہ دیت کی ادائیگی کس صورت میں ضروری ہے اور کس صورت میں نہیں، چنانچہ کہا گیا ہے کہ مقتول مسلمان کا تعلق اگر دار الاسلام سے یا کسی معاہد قوم سے ہو تو دیت کی ادائیگی لازم ہے، لیکن اگر وہ کسی دشمن گروہ کا فرد تھا تو دیت کے بجائے صرف کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا۔ اسی طرح کفارے کی مختلف صورتوں کی بھی باقاعدہ وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کفارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہوگا اور اگر یہ میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے۔
ابتدا میں مرنے والے پر یہ لازم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مال میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کر دے، ۱۸؂ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے والدین، اولاد، میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے خود مقرر فرما دیے۔۱۹؂ ان دونوں احکام کے بیان کا اسلوب ایک دوسرے سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ چنانچہ پہلے حکم میں ورثہ کے حصص متعین نہیں کیے گئے اور صرف یہ تلقین کی گئی ہے کہ دستور اور رواج کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت کی جائے، بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کی وصیت میں کسی جانب داری یا حق تلفی کا پہلو دکھائی دے تو اس میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے ورثہ کے حصص خود بیان فرمائے ہیں، وہاں اس کو اللہ تعالیٰ کی وصیت قرار دیا ہے جس میں کسی زیادتی یا جانب داری کا خدشہ نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ ان کی حیثیت ’فریضۃ من اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض کی ہے جس سے انحراف یا تجاوز کرنے پر دوزخ کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔
اب اگر شارع کو شریعت کے ظاہری احکام کی پیروی مطلوب نہیں اور ان کی حیثیت محض وقتی ہدایات یا نظائر کی ہے تو قرآن مجید کے بعض احکام کو معاشرے کے معروف اور دستور پر مبنی قرار دینے جبکہ بعض کو متعین صورت میں بیان کرنے اور پھر ان کی پابندی کی پرزور تاکید کرنے کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے؟
قرآن کے احکام کی ابدی حیثیت تورات کے احکام اور قرآن مجید میں دی جانے والی شریعت کے مابین پائے جانے والے ایک بنیادی فرق سے بھی واضح ہوتی ہے۔ تورات کے ساتھ قرآن مجید کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ تورات کے برعکس قرآن مجید میں شریعت کو قصداً بہت مختصر اور محدود رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جن معاملات کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے ازخود بیان نہیں کیا، ان میں سوالات اور استفسارات کے ذریعے سے خدا کی منشا کو متعین طور پر معلوم کرنے سے گریز کیا جائے۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِن تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِن تَسْءَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ.(۵: ۱۰۱)
’’اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تم پر واضح کر دی گئیں تو تمھیں مصیبت میں ڈال دیں گی۔ اور جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمھارے لیے واضح کر دی جائیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بڑے تحمل والا ہے۔‘‘

یہ آیت اس معاملے میں صریح نص کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام کی فی نفسہٖ پابندی لازم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں شریعت کو محض اس حد تک محدود رکھنے کا اہتمام کیا ہے جو اس کے پیش نظر مقاصد کے لحاظ سے ہر دور کے لیے موزوں، مناسب اور مطلوب ہے۔ ورنہ اگر قرآن کے بیان کردہ قوانین محض وقتی نظائر کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کو مختصر اور محدود رکھنے اور مسکوت عنہ امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی منشا معلوم کرنے کے لیے سوال کرنے کی ممانعت بالکل بے محل اور ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔
شرعی قوانین واحکام کی اصولی حیثیت کے حوالے سے مذکورہ نصوص کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ خاندانی قوانین میں مرد اور عورت کے مابین امتیاز اور معاشرتی جرائم پر شریعت کی مقرر کردہ جن سزاؤں کو محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کا تقاضا قرار دیا جاتا ہے، خود قرآن وسنت کے نصوص ان احکام کو ایک بالکل مختلف زاویے سے پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ اور ’لِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘ کے الفاظ میں خاندانی رشتے میں بیوی کے مقابلے میں شوہر کی جو بالاتر حیثیت بیان کی ہے، زیر بحث زاویۂ نگاہ کی رو سے تاریخی سیاق کی روشنی میں اس کی وجہ محض یہ تھی کہ خواتین اس وقت کسب معاش کے میدان میں مردوں سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں تھیں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری شوہروں پر ہی عائد ہوتی تھی، اس لیے اگر جدید تمدن میں خواتین کے لیے اپنی معاشی کفالت خود کرنے کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں تو اس کے نتیجے میں حق طلاق، وراثت کے حصوں اور دیگر امور میں بھی میاں بیوی کے مابین مساوات پیدا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاہم قرآن کا زاویۂ نگاہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
اولاً، قرآن مجید نے ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ کی اصل وجہ معاشی کفالت نہیں، بلکہ یہ بیان کی ہے کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘، یعنی مردوں کو اللہ تعالیٰ نے بعض خلقی صفات کے لحاظ سے عورتوں پر برتری عطا کی ہے اور اس برتری کی بنا پر خواتین کے تحفظ اور کسب معاش کی ذمہ داری بھی فطری طور پر انھی پر عائد ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شوہر کا بیوی کی کفالت کرنا محض ایک واقعے کا بیان نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری کا بیان ہے اور سماجی وتمدنی تبدیلی خواتین کے لیے معاشی میدان میں مسابقت کے دروازے کتنے ہی کھول دے، کفالت کی یہ ذمہ داری مرد پر ہی عائد رہے گی۔ عقل وانصاف کے زاویے سے بھی اس امر پر زیادہ استدلال کی ضرورت نہیں کہ طبعی و خلقی نزاکتوں اور بچوں کی ولادت اور پرورش کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی کفالت کی ذمہ داری بھی خواتین پر ڈال دینا ان کے ساتھ صریح بے انصافی ہے اور قرآن دراصل انھیں اسی سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ گویا معاشی کفالت میاں بیوی کے مابین فرق مراتب کی اصل وجہ نہیں، بلکہ اصل وجہ پر متفرع ہونے والا ایک نتیجہ ہے اور اپنی اساس کے ابدی ہونے کی بنا پر اس کو نظر انداز کرکے حقوق وفرائض کی کوئی نئی تقسیم قائم کرنا علم وعقل اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کیے بغیر ممکن نہیں۔
ثانیاً، قرآن مجید نے اس سے آگے بڑھ کر فرق مراتب کی بنیاد پر ہی خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی اس بالاتر حیثیت کو چیلنج کرے اور سرکشی کر کے خاندان کے نظم کو بربادی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہے تو وعظ ونصیحت کے بعد شوہر اپنی بیوی کو مناسب جسمانی تادیب کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر شوہر کو حاصل برتری محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کی پیداوار تھی تو قرآن کو اس کے خاتمے کی ترغیب دینے کے بجائے اس کو برقرار رکھنے کے لیے ازخود اس طرح کے اقدامات تجویز کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یہ بات اس تناظر میں بالخصوص قابل توجہ ہے کہ غلاموں اور لونڈیوں کے معاملے میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اس کی کسی غلطی پر تھپڑ مار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے تنبیہ فرمائی اور پھر جب اس شخص نے اس پر نادم ہو کر غلام کو آزاد کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔۲۰؂
ثالثاً، مرد کے لیے تسلیم کی جانے والی برتری کو ایک وقتی سماجی ضرورت کی پیداوار قرار دینا اس لیے بھی ناقابل فہم ہے کہ قرآن براہ راست طلاق دینے کے حق کو صرف شوہر کے لیے بیان کرتا ہے جس کی توجیہ معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ شادی سے پہلے لڑکی کی کفالت کے ذمہ دار اس کے اہل خاندان ہوتے تھے اور شادی کے بعد شوہر، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کسی کو بالغ عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کرنے کا حق نہیں دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی انحصار فی نفسہٖ عورت کو اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر معاشی انحصار رشتۂ نکاح کو وجود میں لانے کے معاملے میں عورت سے اس کے اختیار کو سلب کرنے کی وجہ نہیں بن سکتا تو اسے اس رشتے کو ختم کرنے کے حق کی نفی کی بنیاد بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نکتہ بھی اس امر کو واضح کرتا ہے کہ شوہر کو بیوی پر ایک درجہ زیادہ دینے کی توجیہ، جس کا ایک اظہار حق طلاق کی صورت میں بھی ہوتا ہے، محض معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی۔
رابعاً، خاندانی رشتے میں شوہر کی بالادستی کے کم از کم ایک اور نہایت بنیادی پہلو کی غالباً زیر بحث نقطۂ نظر کے ترجمان اہل فکر بھی نفی نہیں کرتے۔ میری مراد بچے کے نسب سے ہے۔ اگر شوہر کو حاصل ایک درجے کی بالادستی مخصوص سماجی صورت حال پر مبنی تھی اور قرآن دراصل معاشرتی ارتقا کو اس رخ پر آگے بڑھانا چاہتا ہے جس کا نتیجہ میاں بیوی کے یکساں اور مساوی حقوق کی صورت میں نکلے تو ظاہر ہے کہ اس بالادستی کے تمام مظاہر اور نتائج کو اس صورت حال میں تبدیلی کے ساتھ ختم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ یہ ماننا پڑے گا کہ جیسے ہی میاں بیوی کے مابین مساوات کے موانع ختم ہو جائیں اور اس مساوات کو عملاً قائم کرنا ممکن ہو، اس کے بعد بچے کے نسب کو باپ کے ساتھ وابستہ رکھنا ضروری نہیں رہے گا۔ جب میاں اور بیوی، دونوں خاندانی رشتے میں مساوی حیثیت کے حامل ہیں تو بچے کے نسب اور اس کی شناخت میں بنیادی حوالہ باپ کا کیوں ہو اور اس نسب کی حفاظت کے لیے شریعت میں جو بعض دیگر احکام دیے گئے تھے، مثلاً عدت گزارنا اور بیوی کے لیے بیک وقت ایک سے زائد شادی کا حق تسلیم نہ کرنا وغیرہ، وہ بھی قانون کی بنیاد ختم ہو جانے کے بعد کیوں باقی رہیں؟ اور اگر یہ نتیجہ قابل قبول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی کفالت کے جس اصول کو شوہر کی بالادستی کی واحد بنیاد قرار دیا گیا تھا، وہ بجائے خود ناقص اور محل نظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میاں بیوی کے رشتے اور اس سے قائم ہونے والے حقوق وفرائض اور فرق مراتب کو سماجی ومعاشی صورت حال سے پیدا ہونے والی ایک ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اسے مخصوص مذہبی مفہوم میں ’تقدس‘ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ قرآن کے نزدیک دنیوی زندگی کے معاملات کو دیکھنے کا صحیح زاویۂ نگاہ مابعد الطبیعیاتی، اخلاقی اور روحانی ہے اور وہ انسانی تعلقات کے دوسرے دائروں کی طرح خاندان کے دائرے میں بھی اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کرتا ہے، چنانچہ وہ خاوند کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فضیلت اور اس سے پیدا ہونے والی حقوق وفرائض کی تقسیم کو تسلیم کرنے اور عملاً اس کی پابندی قبول کرنے کو نیکی، تقویٰ اور اطاعت کی لازمی شرط قرار دیتا ہے۔ سورۂ نساء کی آیت ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ‘ ۲۱؂ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کی تمہید کے طور پر میاں اور بیوی کے مابین فرق مراتب کو دنیا میں خدا کی اسکیم کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہ تلقین کی ہے کہ ’وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ ۲۲؂ یعنی جو فضیلت اللہ نے اپنی حکمت کے تحت تم میں سے بعض کو بعض پر دی ہے، اس کے خواہش مند نہ بنو۔ آگے چل کر نیک بیویوں کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہیں اور پھر شوہروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر بیویاں اس سے مختلف رویہ اختیار کریں تو وہ آخری چارۂ کار کے طور پر ان کی جسمانی تادیب بھی کر سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہونے کی مستحق بن جاتی ہے۔۲۳؂ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔۲۴؂
شوہر اور بیوی کے رشتے کی یہ نوعیت اگر جدید مغربی فکر کے لیے قابل قبول نہیں تو یہ تاریخی سیاق اور سماجی ضروریات کے بدلنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ مابعد الطبیعیات کا سوال ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے جدید مغربی تصور کے لیے یہ بات اس لیے ناقابل فہم ہے کہ یہ تصور انسان کی عظمت ومرکزیت اور انفرادیت پسندی کے اس گمراہ کن فلسفے سے پھوٹا ہے جو انسان کو اس کے گرد وپیش میں پھیلی ہوئی کائنات اور اس کے خالق سے بے نیاز کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ فرد کی شخصی انا، احساسات، خواہشات اور مفادات اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور تمام اخلاقی ومعاشرتی ضابطے دراصل سماج میں رہنے والے افراد کے انفرادی حقوق اور خواہشات کے تحفظ اور تکمیل کی خدمت انجام دینے کے علاوہ اپنے اندر کوئی معنویت نہیں رکھتے۔ حب ذات کا یہ بے لگام جذبہ ہی ان تمام مذہبی، روحانی اور اخلاقی قدروں کی تباہی کا سبب ہے جو نہ صرف انسان کی شخصیت، بلکہ خاندان اور سماج کی پاکیزہ نشوو نما کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یہ فکر وفلسفہ انسانوں میں پائے جانے والے بعض نفسیاتی احساسات کو نامعقول حد تک انگیخت کر کے انھیں اعلیٰ روحانی ، اخلاقی اور سماجی قدروں سے بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اس طرح رشتوں، ناتوں اور تعلقات میں تناؤ اور کشاکش کی ایسی فضا پیدا کر دیتا ہے کہ پورا سماج، مختلف طبقات کے مابین شدید بداعتمادی اور بد گمانی کے ماحول میں ’انسانی حقوق‘ کے میدان جنگ کی تصویر پیش کرنے لگتا ہے جس میں خدا کے حکم کی اطاعت میں اس کی قائم کردہ تقسیم کو قبول کرنا اور حیات انسانی کو ایک اخلاقی آزمایش سمجھتے ہوئے اپنے اپنے دائرے میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کرنے اور فرائض کو بجا لانے کا تصور ایک بالکل اجنبی تصور قرار پاتا ہے۔
یہی معاملہ مختلف معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن مجید کی مقرر کردہ سزاؤں کا بھی ہے۔ ان سزاؤں میں کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے، سولی دینے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ قرآن مجید ان سخت سزاؤں کو محض ایک سماجی ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس میں خود خدا کو بھی ایک فریق قرار دیتا ہے۔
چنانچہ وہ چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کو ’نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ‘ ۲۵؂ یعنی اللہ کی طرف سے عبرت کا نمونہ۔ اور محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی دینے یا ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے کو ’ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا‘ ۲۶؂ یعنی دنیا میں ان کے لیے رسوائی قرار دیتا ہے۔ زنا کی سزا کے بارے میں اس نے فرمایا ہے کہ یہ خدا کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، اس لیے نہ صرف مجرم پر ترس کھانے یا نرم دلی کا کوئی جذبہ سزا کے نفاذ کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس سزا کو کھلے بندوں مجرم پر نافذ کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ۲۷؂ اب دور جدید میں ان سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کرنے کی وجہ محض کوئی سماجی مصلحت نہیں، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں واقع ہونے والا ایک نہایت بنیادی اختلاف ہے۔ جدید ذہن کو یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے اور زاویۂ نگاہ کی یہ تبدیلی محض قانون کی سماجی مصلحت کے دائرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ سوال قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ شیطان اسی لیے راندۂ درگاہ ٹھہرا تھا کہ اس نے ’خودی‘ کو حکم خداوندی سے بھی بلند کر لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مجرموں کے لیے اپنی بیان کردہ سزاؤں کے نفاذ کے معاملے میں مجرم پر کوئی ترس نہ کھانے کو ’اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘ کہہ کر براہ راست ایمان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ پس جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے معاشرتی مصالح کے تناظر میں قانون میں تبدیلی کرنے کا اصول کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ قرآن مجید نہ صرف اپنے بیان کردہ احکام کی فی نفسہٖ پابندی کو اصولی طور پر لازم قرار دیتا ہے، بلکہ اپنے احکام کی بنیادیں بھی اس سے مختلف بیان کرتا ہے جو زیر بحث نقطۂ نظر میں ان کے لیے فرض کر کے ان کی روشنی میں احکام کی شکل وصورت کو ازسرنو وضع کرنے کا حق مانگا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ مفروضہ کہ دین کے نصوص اپنے بیان کردہ احکام کی نوعیت وحیثیت کے بارے میں خاموش ہیں، اس لیے اس نکتے کا فیصلہ تاریخی سیاق کی روشنی میں کیا جائے گا، ایک بدیہی اور واضح حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اب اگر ان نصوص کو نظر انداز کر کے احکام شریعت کی نوعیت وحیثیت کو طے کرنے کی بحث کا مدار خالصتاً کسی عقلی مقدمے پر رکھا جائے تو یہ بنیادی طور پر ایک فلسفیانہ طریق استدلال ہوگا جو دائرۂ ایمان کے اندر نہیں، بلکہ اس سے باہر کھڑے ہو کر ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان اگرچہ بذات خود عقلی اساسات پر استوار ہوتا ہے، لیکن ایمان لے آنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اب عقل آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اس کی ساری تگ وتاز کا دائرہ خدا اور اس کے پیغمبر کی منشا اور مراد کا فہم حاصل کرنے تک محدود ہو گیا ہے، اس لیے ایمان کے دائرے کے اندر اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ مذہبی سرچشموں کو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مشمولات کا علم حاصل کرنے کے لیے تو ماخذ تسلیم کیا جائے لیکن ان مشمولات کی نوعیت وحیثیت اور قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے عقل بجائے خود فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہو۔
تاہم یہاں بحث کا ہر ممکن زاویے سے جائزہ لینے کی خاطر ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس طریقۂ استدلال کی گنجایش موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص دور میں اپنے بندوں کے لیے جو ہدایت نازل کی، اس کے مشمولات کا علم حاصل کرنے کی حد تک تو نصوص سے استفادہ کیا جائے گا، لیکن جہاں تک ان کے مختلف اجزا کی نوعیت یا قدر و قیمت کا تعلق ہے تو اس کی تعیین کے لیے نصوص سے ہٹ کر آزادانہ عقلی استدلال کو بروے کار لایا جائے گا۔ عقلی استدلال ظاہر ہے کہ انسانی نفسیات ومحسوسات کے مطالعہ اور تجربہ ومشاہدہ پر مبنی سماجی علوم سے ترتیب پانے والے عقلی مقدمات پر مبنی ہوگا اور انھی کی روشنی میں یہ طے کیا جائے گا کہ ہدایت کے مشمولات میں سے کون سا جزو کیا قدر و قیمت رکھتا ہے اور اس سے کس نوعیت کی وابستگی ضروری یا غیر ضروری ہے۔ اس صورت میں ایک نہایت بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر بحث کا مدا ر اصلاً عقلی استدلال پر ہے تو پھر ابدی طور پر مطلوب مقاصد اور ان کے حصول کے وقتی، عارضی اور قابل تبدیل ذرائع اور وسائل میں فرق کا معیار کیا ہوگا؟ جہاں تک میں غور کر سکا ہوں، عقلی استدلال کی بنیاد پر اس طرح کا کوئی امتیاز قائم کرنا ممکن نہیں اور اگر اس طریقۂ استدلال کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تو بطور ایک دین کے خود اسلام کے امتیازی تشخص ہی کو محفوظ رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس نکتے کو چند مثالوں سے واضح کرنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ شریعت کے جملہ احکام کے پس منظر میں بنیادی طور پر دین، جان، مال، عقل اور نسل کی حفاظت کے مقاصد کارفرما ہیں۔ ان میں سے دین کو لیجیے: یہاں جان، مال، آبرو اور نسل کے تقابل میں دین سے مراد وہ مذہبی آداب ورسوم، شعائر اور پرستش کے مختلف طریقے ہیں جو انسان کے جذبۂ عبودیت کے اظہار اور اس کے مذہبی جذبات کو ’symbolize‘ کر کے انھیں ایک حسی صورت عطا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شارع کا مقصد اس اصل جذبۂ عبودیت کا تحفظ ہے جو عبادت کی ان ظاہری صورتوں کا محرک بنتا اور ان میں سرایت کیے ہوئے ہے یا یہ بات بھی مقصد کا حصہ ہے کہ ان جذبات واحساسات کا اظہار انھی مخصوص صورتوں کے ذریعے سے کیا جائے؟ منطقی طور پر یہ کلیہ کہ مخصوص سماجی اور تاریخی تناظر میں دیے جانے والے قانون کی ظاہری صورت کے بجائے اس کے مقاصد مطلوب ہوتے ہیں، صرف سماجی نوعیت کے قوانین پر نہیں، بلکہ مذہبی رسوم وشعائر اور عبادات سے متعلق قوانین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر سماج اور معاشرے سے متعلق احکام وقوانین کی ظاہری صورت کی پابندی لازم نہیں تو عبادات کی ظاہری صورتوں کو لازم قرار دینے کی بھی کوئی وجہ نہیں بالخصوص اس تناظر میں کہ معاشرتی و سماجی احکام کی طرح عبادات سے متعلق اسلامی شریعت کے قوانین میں بھی اہل عرب ہی کی مذہبی روایت کو بنیاد بنایا گیا ہے اور ان پر ان کے مخصوص مذہبی مزاج، ذوقی مناسبت اور تہذیبی وسماجی رجحانات کی چھاپ پوری طرح موجود ہے۔ اگر اصول یہ ہے کہ شارع کو حکم کی ظاہری شکل نہیں، بلکہ اس کی روح مطلوب ہے اور اس کے لیے کوئی بھی شکل اختیار کر لینا ہر معاشرے کے اپنے مخصوص مزاج اور رجحانات پر منحصر ہے تو پھر عبادات کے دائرے میں بھی یہ کہنے میں منطقی طور پر کوئی مانع موجود نہیں کہ خدا کی یاد کے لیے نماز سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا، تقویٰ اور ضبط نفس پیدا کرنے کے لیے روزے کے علاوہ بدنی ریاضت کی کوئی بھی صورت اپنائی جا سکتی،اور مذہبی احساسات کو پیکر محسوس میں ڈھالنے کے لیے مختلف اذواق، تہذیبی رجحانات اور تمدنی حالات کے لحاظ سے پیغمبر سے ثابت رسوم و شعائر کے علاوہ متبادل طریقے بھی اپنائے جا سکتے ہیں۔ آخر اہل عرب کے ذوق ورجحان اور تمدنی حالات کی عکاسی کرنے والے طریقہ ہاے عبادت کی پابندی چین، ہندوستان اور افریقہ کے باشندوں پر کیوں لازم کی جائے اور ان کے ہاں ان کے اپنے اپنے تہذیبی تناظرمیں تشکیل پانے والے عبادات ورسوم کے جو الگ اور مخصوص ڈھانچے موجود ہیں، ان کی ضروری تہذیب وترمیم کے بعد انھیں انھی ڈھانچوں کو اختیار کیے رکھنے کی آزادی کیوں نہ دی جائے؟ بلکہ خود عرب معاشرت نے تاریخی اور تمدنی ارتقا کے جو اگلے مراحل طے کیے ہیں، وہ اگر ان طریقہ ہاے عبادت میں کسی جزوی یا کلی تبدیلی کا تقاضا کریں تو اس پر کس بنیاد پر کوئی قدغن لگائی جائے؟
ان طریقوں کو لازم قرار دینے کے لیے پیغمبر کی سند پیش کرنا بے کار ہوگا، کیونکہ بحث اس مفروضے پر ہو رہی ہے کہ الٰہی ہدایت کے مشمولات جاننے کے لیے تو پیغمبر سے رہنمائی لی جائے گی، لیکن ان کی حیثیت واہمیت نصوص کے بجائے مقاصد اور مصالح کی روشنی میں محض عقلی اصولوں پر طے کی جائے گی، چنانچہ عبادات کی ظاہری صورتوں کو لازم قرار دینے کے لیے نصوص کا حوالہ اس تناظر میں استدلال کے بنیادی مقدمے کے خلاف ہوگا۔ دونوں قسم کے قوانین میں امتیاز کے لیے یہ استدلال بھی یہاں نہیں چل سکتا کہ انسانی سماج چونکہ تغیر اور ارتقا کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے، اس لیے اس دائرے میں قانون میں بھی ارتقا اور تبدیلی کی ضرورت سامنے آتی رہتی ہے، جبکہ مراسم عبادت میں ایسی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ استدلال اول تو اس لیے نتیجہ خیز نہیں کہ یہاں اصل سوال یہ نہیں کہ قانون میں تبدیلی کسی ضرورت کے تحت کی جائے گی یا بغیر ضرورت کے، بلکہ یہ ہے کہ خالص عقلی بنیاد پر کسی مخصوص طریقۂ عبادت کی پابندی لازم ہونے کی کیا دلیل ہے؟ تبدیلی کی ضرورت نہ بھی ہو، تب بھی اگر کوئی فرد یا گروہ اصل مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ذوق ورجحان اور مخصوص تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے کوئی متبادل طریقہ عبادت اختیار کرتا ہے تو آخر کس عقلی بنیاد پر اس کو غلط کہا جا سکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ خالص انسانی زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مراسم عبادت میں تبدیلی کی ضرورت پیش نہ آنے کی بات واقعاتی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ مثال کے طور پر فجر کی نماز کے لیے فجر کا وقت مقرر کرنے کی حکمت تاریخی سیاق کے اعتبار سے یہ تھی کہ قدیم تمدن میں یہی وقت لوگوں کے نیند سے بیدار ہونے کا وقت تھا اور ان سے یہ مطالبہ کرنا موزوں تھا کہ وہ اٹھتے ہی بارگاہ الٰہی میں حاضری دیں اور اس کے بعد اپنے معمولات زندگی کی طرف متوجہ ہوں۔ اگر جدید تمدن نے لوگوں کے سونے اور بیدار ہونے کے معمولات میں تبدیلی پیدا کر دی ہے تو یہ تغیر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ فجر کی نماز کا وقت بھی اس کے لحاظ سے تبدیل کر دیا جائے۔ اسی طرح حج کی عبادت کو سال کے چند مخصوص ایام میں محدود کرنا بہرحال مشکلات ومسائل کا باعث بن رہا ہے اور ذرائع مواصلات کی ترقی اور حاجیوں کی سال بہ سال بڑھتی ہوئی تعداد یہ تقاضا کرتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا مرکز حج مقرر کرنا وحدت کے منافی ہو تو کم از کم اس عبادت کے لیے سال میں ایک سے زیادہ مواقع تو ضرور فراہم کرنے چاہییں۔
اب تک کی بحث سے ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ خالص عقلی بنیاد پر پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے زیادہ سے زیادہ اعتقادی اور اخلاقی حصے ہی کو ابدی مانا جا سکتا ہے، جبکہ مخصوص قوانین کی پابندی پر اصرار کی، چاہے وہ سماجی قوانین ہوں یا عبادات سے متعلق، کوئی قطعی بنیاد موجود نہیں۔ اب اس سے اگلے مرحلے کی طرف آئیے: اگر مابعد الطبیعیاتی تصورات پر ایمان اور اخلاقی طرز زندگی کو اپنانا ہی الٰہی ہدایت کا اصل مطلوب ہے، جبکہ مراسم عبودیت یا سماجی قوانین کا کوئی بھی ڈھانچہ عمومی، اخلاقی یا مذہبی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کیا جا سکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے لیے کسی شخص کا مسلمان ہونا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر آپ کی امت میں شامل ہونا کیوں ضروری ہے؟ خدا کا پیغمبر اور الٰہی ہدایت کا حامل ہونے کے اعتبار سے تمام پیغمبر یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے سچا ہونے پر بیک وقت ایمان رکھا جا سکتا ہے۔ پھر کسی شخص کے لیے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے اور حضرت محمد پر ایمان لانے میں عملی اعتبار سے کیا فرق ہے، جبکہ عقائد واخلاق میں دونوں کی تعلیم یکساں ہے اور ظاہری قوانین و احکام کے دائرے میں نہ شریعت موسوی کی پابندی ضروری ہے اور نہ شریعت محمدی کی؟ اگر ایک شخص توحید اور آخرت کو مانتا ہے، سب رسولوں کو یکساں قابل احترام اور سچا تسلیم کرتا ہے، اخلاقی طرز زندگی کا پابند ہے، اور جذبۂ عبودیت کا اظہار بھی کسی نہ کسی طریقے سے کر لیتا ہے تو اسے ’قبول اسلام‘ کی دعوت کیوں اور کس مقصد کے لیے دی جائے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد آخر اسے مزید کیا کرنا ہوگا، جبکہ الٰہی ہدایت کے سارے مطلوبات تو وہ اس کے بغیر بھی پورے کر سکتا ہے اور کر رہا ہے؟

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت دسمبر 2007
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Oct 14, 2016
3963 View