آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مجادلہ - طالب محسن

آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مجادلہ

(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث : ۸۱)

عن ابی ھریر ۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: احتج آدم و موسیٰ عند ربھما۔ فحج آدم موسی۔ قال موسی : أنت آدم الذی خلقک اﷲ بیدہ و نفخ فیک من روحہ ۔ و أسجد لک ملائکتہ و أسکنک فی جنتہ ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک الی الارض؟ قال آدم : أنت موسی الذی اصطفاک اﷲ برسالتہ و بکلامہ ۔ وأعطاک اﷲ الالواح فیھا تبیان کل شیء و قربک نجیا ، فبکم وجدت اﷲ کتب التوراۃ قبل أن أخلق ؟ قال موسی بأربعین عاما ۔ قال آدم : فھل وجدت فیھا ( وعصی آدم ربہ فغوی) (طہ ۲۰: ۱۲۱) قال : نعم۔ قال : أفتلومنی علی أن عملت عملا کتبہ اﷲ علی أن أعملہ قبل أن یخلقنی بأربعین سنۃ ؟ قال رسول اﷲ ۔ فحج آدم موسی۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام ) میں اپنے پروردگار کے ہاں بحث ہوئی ۔ چنانچہ آدم (علیہ السلام )نے موسیٰ (علیہ السلام ) کو لاجواب کر دیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : آپ وہ آدم ہو جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی ، آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنی غلطی کے باعث لوگوں کو زمین پر گرا ڈالا ۔ آدم (علیہ السلام ) نے کہا : تم موسیٰ ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کی فضیلت دے کر برگزیدہ کیا۔ تجھے تختیاں دیں جن میں ہر چیز کی وضاحت تھی ۔اور سرگوشی کے ذریعے سے تجھے تقرب عطا کیا ۔ پھر ( بتاؤ) میری پیدایش سے کتنا عرصہ پہلے تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے تورات لکھ دی تھی ، موسیٰ (علیہ السلام ) نے بتایا : چالیس سال پہلے ۔ آدم (علیہ السلام ) نے پوچھا : کیا تم نے اس میں( لکھا ) پایا : آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھٹک گیا ۔موسیٰ (علیہ السلام ) نے جواب دیا : ہاں ۔ آدم (علیہ السلام ) نے کہا : تم مجھے میرے اس عمل پر ملامت کر رہے ہوجو اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر لازم کر رکھا تھا کہ میں اسے انجام دوں اور وہ بھی میری تخلیق سے چالیس سال پہلے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اس طرح ) آدم (علیہ السلام ) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چپ کرادیا ۔ ‘‘

لغوی مباحث

احتج: دلیل دینا، کسی کے خلاف دعویٰ کرنا۔
حج: دلیل دینے میں غالب آنا۔
قربک: قریب کرنا یعنی قرب عطا کرنا ۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اس کے معنی بارگاہِ ایزدی میں مرتبہ پانے کے ہیں۔
نجیا: جس سے سرگوشی کی جائے ۔
غوی: گمراہ ہونا۔

متون

یہ روایت مختلف انداز میں روایت ہوئی ہے ۔ بعض کتب میں اس کے تفصیلی متن روایت ہوئے ہیں اور بعض میں واقعہ بڑے اختصار سے بیان ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے کسی میں کچھ جملے روایت نہیں ہوئے ۔ کسی میں بعض دوسرے جملے نقل نہیں کیے گئے ۔مثلاً بعض روایات میں مکالمۂ آدم و موسیٰ کے ساتھ ’عند ربھما‘ کا اضافہ مذکور نہیں ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ’و اسجد لک ملائکتہ و اسکنک فی جنتہ‘ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ بعض روایات میں ’ثم اھبطت الناس بخطیئتک الی الارض‘ کے بجائے ’أغویت الناس و أخرجتھم من الجنۃ‘، یا ’أدخلت ذریتک النار‘ یا ’فلو لا ما فعلت لدخل کثیر من ذریتک الجنۃ‘، یا ’یا آدم أنت ابونا خیبتنا و أخرجتنا من الجنۃ‘ جیسے مختلف الفاظ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتراض کو نقل کیا گیا ہے ۔
یہی معاملہ حضرت آدم علیہ السلام کے جواب کا ہے۔ ایک روایت میں ’برسالتہ و أعطاک اللّٰہ ۔۔۔ فغوی‘ والا جملہ نقل نہیں ہوا۔ کچھ روایات میں آخری بات مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہے: ’فھل وجدت إنی أھبط فقال نعم فحجۃ آدم‘، یا ’ثم تلومنی فیما قد کتب علی قبل أن یخلقنی فاحتجا الی اللّٰہ فحج آدم موسی‘۔
اس روایت کے متون کے کچھ اختلافات اہم ہیں۔ مثلاً، قرآنِ مجید کی آیت ’عصی آدم ربہ فغوی‘ (طہ ۲۰ : ۱۲۱) صحاح میں سے مسلم کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ۔اسی طرح اس روایت کا آخری جملہ ’فحج آدم موسی‘ کے ساتھ بعض روایات میں ’ثلاثا‘ اور بعض روایات میں ’مرتین‘ کی وضاحت بھی شامل ہے۔ مزید برآں تورات کے حوالے سے ’اربعین سنۃ‘ کی تصریح اس روایت کے اکثر متون میں موجود نہیں ہے۔

معنی

اس روایت کی شرح میں ایک بحث اس حوالے سے ہے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور اس کی نوعیت کیا تھی ۔ چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ ملاقات عالمِ ارواح میں ہوئی ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت آدم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر کچھ دیر کے لیے زندہ کیا گیا اور اس ملاقات میں یہ گفتگو ہوئی ۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ملاقات قیامت میں ہو گی اور اس موقع پر یہ گفتگو ہو گی جسے ایک واقعہ کی حیثیت سے بیان کر دیا گیا ہے ۔
دوسری رائے محض ایک قیاس ہے اور اس کے حق میں کوئی قرینہ بھی روایت میں موجود نہیں ۔اس رائے کے پیچھے ابوداؤد کی ایک روایت ہے ۔ اس روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا کہ وہ ان سے تمام انسانوں کو جنت سے محروم کرنے پر بات چیت کریں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بخاری و مسلم کے اس روایت کو قبول نہ کرنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک کمزور روایت ہے ۔دوسری یہ کہ خود اس واقعے کی جو تفصیلات اس روایت میں بیان ہوئی ہیں ،وہ بھی اسے دنیا میں ہونے والا واقعہ قرار دینے میں حائل ہیں ۔ہمارے نزدیک پہلی اور تیسری رائے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک ہی ہے اورروایت کا متن انھی کے موافق ہے ۔ ’عند ربھما‘ کے الفاظ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور مکالمے کی جزئیات بھی ۔
اس روایت میں جنت کا ذکر ہوا ہے۔ قرآنِ مجید نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے مسکن کے لیے جنت ہی کا لفظ استعمال کیاہے ۔شارحین نے یہاں یہ بحث کی ہے کہ یہ کون سی جنت ہے ۔ وہی جو قیامت کے بعد بطورِ اجر ملے گی یا اس سے کوئی خصوصی جنت مراد ہے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ آخرت والی جنت ہے اور اس واقعے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ جنت آدم علیہ السلام سے بھی پہلے سے موجود ہے ۔ہمارے نزدیک اس رائے کے حق میں کوئی قوی دلیل نہیں ہے، بلکہ قرآنِ مجید میں ’یوم تبدل الارض غیر الارض والسمٰوٰت‘ کے الفاظ سے جنت اور دوزخ کے پیدا کیے جانے کا اشارہ ملتا ہے۔البتہ یہ بات بھی قرآنِ مجید سے معلوم ہوتی ہے کہ آدم علیہ السلام کی جنت بھی ایک غیر معمولی ٹھکانا تھی۔ سورۂ اعراف میں شیطان کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یَاٰ بَنِیْ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰانُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ ۔ (۷ : ۲۷)
’’ اے اولادِ آدم ، شیطان تمھیں فتنے میں مبتلا نہ کرے ، جس طرح اس نے تمھارے والدین کو جنت سے محروم کر دیا تھا۔‘‘

اس آیۂ کریمہ میں جس طرح جنت کا ذکر ہے، اس میں آدم علیہ السلام کی جنت اور اجر کی جنت کے مشابہ ہونے کا مفہوم بہت نمایاں ہے ۔
اس روایت کے حوالے سے ایک ضمنی بحث چالیس سال کی مدت کے بارے میں بھی ہے ۔ ایک سوال تو اس روایت اور لوحِ محفوظ کے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لکھے جانے والی روایت کے مابین اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ شارحین نے اس کاایک حل یہ بیان کیا ہے کہ چالیس سال سے الواح کے لکھے جانے کا وقت مراد ہے۔ دوسراحل یہ ہے کہ اس سے حضرت آدم کی تخلیق کی ابتداکا وقت مراد لیا جائے، کیونکہ مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ آدم ۴۰ سال تک تصویر کی حالت میں رہے پھر نفخِ روح ہوا۔ پچاس ہزار سال اور چالیس سال کے تضاد کا حل یہ ہے کہ پچاس ہزار سال سے لوح کی تحریر کا وقت مراد ہے۔
ہمارے نزدیک یہ حل سوال کا جواب نہیں ہیں ۔ ہم اس سے پہلی روایت کی وضاحت میں قرآنِ مجید کے حوالے سے یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ لوحِ محفوظ میں اس دنیا میں گرنے والے ایک ایک پتے کا بھی ذکر ہے۔ لہٰذا یہ نا ممکن ہے کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات نہ لکھے گئے ہوں یا تورات لکھی ہوئی موجود نہ ہو ۔البتہ یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے حوالے سے چالیس سال کا عدد بولا ہو اور راوی نے اسے تورات سے متعلق کر دیا ہو۔ اسے الواح سے متعلق قرار دینا، اس وجہ سے محلِ نظر ہے کہ الواح میں شریعتِ موسوی کے احکام ہی درج تھے ۔اس میں قصۂ آدم کا بیان ہونا بظاہر بے محل لگتا ہے ۔
ایک سوال سورۂ طہ کی آیت کے حوالے سے بھی ہے ۔ تورات میں ممکن ہے کہ اس جملے کے ہم معنی کوئی جملہ موجود ہو، لیکن اسے ’وجدت‘ کے الفاظ کے ساتھ بعینہٖ نقل کر دینا موزوں نہیں لگتا ۔ قیاس یہی ہے کہ یہ بھی راوی کا اپنا اضافہ ہے ۔
اس روایت کا بنیادی موضوع تقدیر کا مسئلہ ہے ۔ الفاظ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کیا تھا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تقدیر انسانی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، لیکن یہ بات قرآنِ مجید اور تمام الہامی کتب سے واضح ہے کہ نیکی و بدی کو اختیار کرنے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو کامل آزادی دے رکھی ہے اور وہ کسی بھی پہلو سے اس باب میں مجبور نہیں ہے ۔ یہ آزادی امتحان کے نقطۂ نظر سے بھی عدل کا بدیہی تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عادل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں انسان کی آزادی کویقینی بنانے کے لیے اس دنیا کو بہت موزوں بنایا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام تقدیر کے اس پہلو کو کبھی عذر کے طور پر پیش نہیں کر سکتے ۔ یہ چیز اس روایت کو اور بھی کمزور کر دیتی ہے ۔
اگر حضرات آدم و موسیٰ علیہما السلام میں یہ مکالمہ ہوا تو وہ اپنی غلطی کے اعتراف ، اس اعتراف اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت اور مراتب کی بحالی ہی کا ذکر کریں گے ۔ مزید برآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا جلیل القدر پیغمبر اپنے باپ سے اس بات پر مواخذہ کیوں کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہو۔
اس روایت کے بعینہٖ ماننے سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی اصل اسکیم سے واقف نہیں تھے ۔ قرآنِ مجید میں ’انی جاعل فی الارض خلیفہ‘ سے واضح ہے کہ انسان کو اسی آزمایش کی زندگی کے لیے تخلیق کیا گیا تھا ۔ جنت اس کے لیے اجر میں ملنے ہی کے لیے ہے ۔ظاہر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان حقائق سے سب سے بڑھ کر آگاہ تھے اور قیامت کے بعد تو یہ عملاً بھی واضح ہو چکی ہو گی ۔ پھر اس مکالمے کے وجود میں آنے کی کیا وجہ ہے ۔
ہمارے خیال میں یہ روایت اپنے اس مدعاکے ساتھ ہر اعتبار سے محلِ نظر ہے ۔

کتابیات

صحیح ابن حبان ،ج۱۴ ، ص ۵۵۔الجامع لمعمر بن راشد ، ج ۱۱ ، ص ۱۱۲۔ مسند البزاز ، ج ۱ ، ص ۲۷۴۔ مسند الحمیدی ، ج ۲ ، ص ۴۷۵۔ مسند ابی یعلی ، ج۲ ، ص ۴۱۴ ۔ ج ۳ ، ص ۹۰ ۔ ج ۱۱ ، ص ۱۱۸۔ مسند ابن الجعد ، ج ۱ ، ص۱۶۴ ۔ مسند عبد بن حمید ج ۱ ، ص ۲۹۵۔ القدر ، ج ۱ ، ص۵۳۔ السنۃ لعبد اللہ بن احمد ، ج ۱ ، ص ۲۸۷ ۔ بخاری ، کتاب احادیث الانبیا ، باب ۲۹ ۔ کتاب القدر ، باب ۱۱ ۔ کتاب التوحید ، باب۵۲۔ مسلم ، کتاب القدر ، باب ۶ ۔سنن ترمذی ، کتاب القدر ، باب ۲ ۔ سنن ابی داؤد ، کتاب السنۃ ، باب ۱۷ ۔ سنن ابن ماجہ ، کتاب المقدمۃ، باب ۱۰ ۔ مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Jul 28, 2018
2838 View