ابوبکر بن عبد الرحمان مخزومی - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر بن عبد الرحمان مخزومی

 

ابو بکر بن عبد الرحمان بن حارث بن ہشام بنو مخزوم کا سردار ہونے کی وجہ سے مخزومی ،قبیلۂ قریش سے تعلق کی بنا پر قرشی اور مدینہ منورہ میں پیدا ہونے اور وہیں مقیم ہونے کے باعث مدنی کہلاتے تھے۔ان کے والد عبد الرحمان بن حارث اپنے قبیلے کے عاقل و فاضل بزرگ تھے،اگرچہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں پیدا ہوئے، لیکن آپ کی صحبت سے فیض یاب نہ ہو سکے۔ان کے دادا حارث بن ہشام نے فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی کے گھر پناہ لی اور مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ اسلام اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل حارث کا بھائی تھا۔ابو بکرمخزمی کی ولادت حضرت عمر کے زمانۂ خلافت میں ہوئی۔ان کی والدہ کا نام فاختہ بنت عنبہ تھا۔ان کے چھ بھائیوں عبد اﷲ ، عبد الملک ،عکرمہ ، محمد،مغیرہ اور یحییٰ اور دو بہنوں ام حارث اور عائشہ کے نام معلوم ہیں۔ ابو بکر کا نام محمد اور کنیت ابوالرحمان بتائی گئی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کا نام اور کنیت، دونوں ابو بکر تھے ۔ابوبکر اور عروہ بن زبیر جنگ جمل میں شریک ہونے کے لیے طلحہ بن عبید اﷲ اور زبیر بن عوام کے لشکر میں گئے تو کم سن ہونے کی وجہ سے دونوں کوواپس کر دیا گیا۔
انھوں نے اپنے والدعبد الرحمان بن حارث،ابو ہریرہ،عمار بن یاسر،نوفل بن معاویہ،عائشہ،ام سلمہ،ام معقل، عبد الرحمان بن مطیع،ابو مسعود انصاری،جریر بن جابر، عبد اﷲ بن زمعہ،مروان بن حکم،ابو رافع نبوی اوراسماء بنت عمیس سے حدیث روایت کی۔ان سے ان کے بیٹوں عبد الملک،عمر ،عبد اﷲ اور سلمہ، ان کے آزاد کردہ غلام سمی ، ان کے بھتیجے قاسم بن محمد بن عبد الرحمان، زہری،عامر شعبی،عبد ربہ بن سعید،عمر بن عبد العزیز،عبد الواحد بن ایمن، عبد اﷲ بن کعب، ابراہیم بن مہاجر،جامع بن شداد ، حکم بن عتیبہ،خالد بن زید،عر اک بن مالک،عکرمہ بن خالد،عمارہ بن عمیر،عمرو بن دینار،مجاہد بن جبر،یزیدبن ابوسمیہ ، یزیدبن عبد ﷲ اور عبد الحمید بن عبد اﷲنے حدیث روایت کی۔
ابو بکر مخزومی فقہ اور حدیث کے بڑے عالم تھے ۔انھوں نے بہت سی احادیث روایت کیں ،انھیں ثقہ سمجھا جاتا تھا۔ابن سعد نے ان کا شمارتابعین مدینہ کے طبقۂ ثانیہ میں کیا ہے۔فقہ میں ان کی مہارت اس درجہ تک پہنچی تھی کہ انھیں مدینے کے سات گرامی قدر فقہا فقہاے سبعہ میں شامل کیا گیا۔مدینہ منورہ میں فتویٰ ان سات حضرات ہی سے لیا جاتا اگرچہ حضرت عمر کے پوتے سالم جو ایک جلیل القدر عالم تھے، ان کے ہم عصر تھے۔ ابو بکر بن عبد الرحمان کے بھائی عمر ، عکرمہ ، مغیرہ اور عبداﷲکم احادیث روایت کرنے کے با وجود اس قدر ثقہ اور معتبر تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی ہے ۔ان کے بیٹے عبدا ﷲ بن ابو بکر مخزومی مشہور مورخ اور ماہر مغازی ابن اسحاق کے استاد تھے۔
۸۷ھ میں ولید بن عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے اپنے بہنوئی عمر بن عبدالعزیز کو حجاز کا گورنر مقرر کیا۔مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور طائف ان کی عمل داری میں تھے۔ ان دنوں مدینہ با صلاحیت اور ذہین لوگوں کا مرکز تھا، عمر نے اپنے پیش رووں کی طرح مستبدانہ طرز حکومت اختیار نہ کیا۔انھوں نے دس متقی فقہا کی مجلس مشاورت بنائی ، اس میں فقہاے سبعہ؛ سعید بن مسیّب،عروہ بن زبیر ، عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ،ابوبکر بن عبد الرحمان مخزومی،سلیمان بن یسار، قاسم بن محمد اور خارجہ بن زیدکے علاوہ ابو بکر بن سلیمان ، سالم بن عبداللہ اور عبد اللہ بن عامربن ربیعہ شامل تھے۔شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:’’میں نے آپ سب کو ایک ایسے کام کے لیے بلایا ہے جس کا آپ کو اجر ملے گا اورآپ حق کے مددگار بھی بن جائیں گے،میں چاہتا ہوں آپ کے مشورے اور رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کروں ۔میرے کارندوں کی کڑی نگرانی کریں۔ اگر آپ میں سے کوئی کسی اہل کار کو ظلم کرتا دیکھے یا اسے کسی عامل کی زیادتی کی شکایت ملے تو میں اس اطلاع پانے والے کو اﷲ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے ضرور خبر کرے۔‘‘ایک دفعہ عروہ بن زبیر نے بنو مصعب کا کچھ مال ابو بکر مخزومی کے پاس امانت رکھوایا۔اتفاق سے اسے کچھ نقصان نے آ لیا۔عروہ نے انھیں پیغام بھجوایا،آپ پر کوئی تاوان نہ ہو گا کیوں کہ امانت ضائع ہونے پر تاوان نہیں لیا جاتا۔ابو بکر نے جواب دیا ،مجھے معلوم ہے ،مجھ پر چٹی نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوناچاہیے کہ آپ قریش کو بتائیں ، میری امانت تلف ہو گئی۔چنانچہ انھوں نے اپنا ذاتی مال فروخت کر کے ادائیگی کی۔
خلیفہ عبد الملک بن مروان ابو بکر کی بہت عزت کرتاتھا ۔اس نے اپنے بیٹوں اورجا نشینوں ولید اور سلیمان کو بھی ان سے عزت سے پیش آنے کی وصیت کی۔ عبد الملک کا کہنا تھا،میں اپنے ہاں برے ریکارڈ کی وجہ سے مدینہ کے باشندوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا ارادہ کرتا ہوں تو ابو بکر بن عبد الرحمان یاد آ جاتے ہیں۔ مجھے ان سے حیا آتی ہے تو اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہوں۔
فقیہ مخزومی کی بینائی زائل ہو چکی تھی۔سجدہ کرتے وقت بیماری کی وجہ سے اپنا ہاتھ پانی کے تھال میں رکھ لیتے۔ ابو بکر کی تین شادیاں ہوئیں۔سارہ بنت ہشام سے ان کے چھ بیٹے عبدالرحمان ،عبد اﷲ ، عبد الملک ،ہشام ،سہیل اور حارث اور ایک بیٹی مریم پیداہوئے۔قریبہ بنت عبد اﷲ سے دو بیٹے سلمہ اور عمر اور ایک بیٹی ربیحہ تھے۔ تیسری بیو ی رمیثہ بنت ولید سے ایک ہی بیٹی فاطمہ نے جنم لیا ۔
ابو بکر مخزومی عالم ہونے کے ساتھ سخاوت کی صفت بھی رکھتے تھے۔نوافل کثرت سے پڑھتے تھے ،اس لیے راہب قریش کہلاتے تھے ۔ہمیشہ روزے سے رہتے ۔ وہ خوش پوشاک تھے ،پست مونچھیں رکھتے تھے ۔ابو بکر بن عبد الرحمان مخزومی کی وفات نہاتے ہوئے ہوئی۔ان کاسن وفات ۹۳ھ اور ۹۹ھ بھی بیان کیاگیا ہے، لیکن مشہور یہی ہے کہ وہ ۹۴ھ میں فوت ہوئے ۔ اسی سال تین اور جلیل القدرتابعی فقہا سعید بن مسیّب ،علی بن حسین زین العابدین اورعروہ بن زبیر نے وفات پائی، اس لیے یہ عام الفقہا(فقہا کی موت کا سال) کے نام سے مشہور ہے ۔
مطالعۂ مزید: طبقات ابن سعد،تہذیب الکمال (مزی)،وفیات الاعیان(ابن خلکان)،تہذیب التہذیب (ابن حجر)، تذکرۃ الحفاظ (ذہبی)، تاریخ الاسلام(ذہبی)، سیراعلام النبلا(ذہبی)۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Oct 29, 2018
1620 View