حفظ فروج - جاوید احمد غامدی

حفظ فروج

 اسلامی شریعت تسکین شہوت کے لیے بیویوں کے سوا کسی کے ساتھ کوئی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے اِسے حرام قرار دیا ہے اور سورۂ مومنون میں پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ قضاے شہوت کے لیے جو لوگ اِن کے ماسوا کسی سے تعلق قائم کریں گے، وہ خدا کے حدود سے تجاوز کے مجرم ہوں گے۔ زمانۂ رسالت کی جن لونڈیوں کے لیے اُس وقت تک آزادی کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی تھی، وہ، البتہ اِس حکم سے مستثنیٰ تھیں اور لوگ چاہتے تو اُن کے ساتھ بھی یہ تعلق قائم کر سکتے تھے۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَآٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ، فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ، فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ.(المومنون ۲۳:۵۔۷)
’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا، اِس لیے کہ اُن کے معاملے میں اُن پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ ہاں، جو اِن کے علاوہ کچھ چاہیں تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔‘‘

آیت کا مدعا یہی ہے، مگر اِس سے بعض فقہا نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اِس میں بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا قضاے شہوت کے تمام طریقے حرام قرار دیے گئے ہیں، لہٰذا زنا، عمل قوم لوط اور وطی بہائم کی طرح جلق ’masturbation ‘کی مختلف صورتیں بھی قطعاً حرام ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو رعایت اِس معاملے میں دی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اِن کی حرمت زنا اور عمل قوم لوط اور وطی بہائم کی بہ نسبت کم تر سمجھی جائے اور اِن گناہوں سے بچنے کے لیے لوگ اگر اِس طریقے سے اپنے جوش طبع کی تسکین کر لیں تو اُن کے حق میں توقع رکھی جائے کہ شاید اللہ تعالیٰ اُنھیں سزا نہ دے۔
ہمارے نزدیک یہ استدلال عربیت کی رو سے نہایت کمزور، بلکہ غلط ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں ’عَلٰی‘ ’حٰفِظُوْنَ‘ کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا، اِس لیے یہاں لازماً تضمین ہے اور ’حٰفِظُوْنَ‘ کے بعد ’عن الوقوع علٰی احد‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ مستثنیٰ منہ استمنا کے طریقے نہیں، بلکہ افراد ہیں جن سے کوئی شخص جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ آیت کے معنی یہ نہیں ہو سکتے کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا قضاے شہوت کا کوئی طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ ہوں گے کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا کسی سے قضاے شہوت کرنا جائز نہیں ہے۔آیت کی صحیح تاویل یہ ہے، لہٰذا پورے اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی نص صریح یا قاعدۂ کلیہ ایسا نہیں ہے جس کے تحت استمنا بالید کو حرام یا مکروہ ٹھیرایا جائے۔ یہی صورت حدیث کی ہے۔ اِس کے ذخائر بھی اِس کے متعلق کسی ایسی روایت سے خالی ہیں جو محدثین کے نزدیک قابل قبول ہو۔ چنانچہ اِس معاملے میں صحیح مسلک وہی ہے جو امام ابن حزم نے اپنی کتاب ’’المحلیٰ‘‘ (۱۳/ ۲۲۱) میں پورے دلائل کے ساتھ پیش فرمایا ہے، پھر سند کے ساتھ بتایا ہے کہ حسن بصری، عمرو بن دینار، زیاد ابو العلا اور مجاہد جیسے بزرگ بھی استمنا بالید کی اباحت کے قائل تھے جو اِس طرح کی چیزیں بالعموم صحابۂ کرام ہی سے روایت کرتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2010
مصنف : جاوید احمد غامدی