جہاز کی تباہی اور قوم کی تباہی - ابو یحییٰ

جہاز کی تباہی اور قوم کی تباہی

 پی آئی اے کے جہاز کا گرنا اس کے مسافروں کے لیے موت، لواحقین کے لیے قیامت اور باقی قوم کے لیے سوگ کا باعث بن چکا ہے۔ جنید جمشید کی شخصیت کی وجہ سے میڈیا پر یہ سوگ اور نمایاں اور لوگوں کے لیے یہ سانحہ زیادہ باعث رنج بن گیا ہے۔ مگرگرنے والے جہاز کا یہ سوگ نیا نہیں۔ ہم نے بہت ماتم، بہت سوگ دیکھے ہیں۔ کس کس شخصیت کا نام اور کون کون سے واقعات گنوائے جائیں؟ کوئی دو چار ہوں تو گنوانا بھی اچھا لگے۔

چند دن کا یہ سوگ ہے اور چند دن کی باتیں۔ پھر وہی دن ہوں گے اور پھر وہی راتیں۔ پھر کوئی سانحہ ہو گا، کوئی حادثہ ہو گا، قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہو گا، مرنے والوں کے گھروں میں قیامت آجائے گی، میڈیا کے سدا کے بھوکے پیٹ کو اپنے بھرنے کے واسطے دوچار دن کی خوراک مل جائے گی اور پھر اگلے حادثے تک فراموشی کی کیفیت طاری رہے گی۔

دنیا بھر میں انسان بستے ہیں۔ جہاز، ریل اور گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ مگر حادثات اتنے تواترسے نہیں ہوتے۔ انسانی جان اتنی بے وقعت نہیں ہوتی۔ ہوائی سفر بہت خطرناک ہونے کے باوجود دنیا کا محفوظ ترین سفر ہے۔ برسوں کے تجربے کے بعد مغربی دنیا نے ایسے قوانین وضع کر لیے ہیں کہ اب وہاں شاذ ہی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ مگر کوئی ان قوانین پر عمل ہی نہ کرے تو کیا کیا جائے۔ اندازہ کیجیے کہ ہماری تاریخ کے کل سولہ فضائی حادثات میں سے نصف یعنی آٹھ پچھلے تیرہ برسوں میں پیش آئے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارے ہاں حادثات نہیں ہوتے، غفلت کے نتیجے میں پیش آنے والے جرائم ہوتے ہیں۔ یہ غفلت اس ہمہ گیر اخلاقی زوال کا نتیجہ ہے جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔

انسانی جانوں کے معاملے میں یہ غفلت مجرموں، دہشت گردوں سے نمٹنے سے لے کر مریضوں کے غلط علاج تک اور ناقص غذاؤں، جعلی ادویات سے لے کر سڑکوں، ریلوں اور ہوائی جہازوں کے حادثات تک پھیلی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تیس برسوں سے ہم ایک ہمہ گیر اخلاقی زوال کی طرف گامزن ہیں۔ ہم طالب علموں کے لیے تو قرآن مجید کا بیان ہی کافی ہے، مگر ابن خلدون سے لے کر ٹوائن بی تک جیسے عظیم تاریخ داں اور ماہرین سماجیات بھی گواہی دیتے ہیں کہ اس طرح کے اخلاقی زوال کی آخری منزل عظیم تباہی ہوا کرتی ہے۔

اخلاقی پستی کیا ہوتی ہے، اسے اللہ تعالیٰ سے بہتر اور کون بیان کرسکتا ہے؟اللہ کے نزدیک اخلاقی پستی عدل، احسان، ایثار کے زوال اور فواحش، منکر، حق تلفی اور ظلم کے فروغ کا نام ہے۔ اپنے فرائض سے غفلت جو ایسے بھیانک حادثات کو جنم دیتی ہے، ان بنیادی اقدار میں سے پہلی یعنی عدل کو بھول جانے کا نام ہے۔ عدل کیا ہے؛ اپنی ذمہ داری، اپنی ڈیوٹی اور اپنے اوپر عاید حق کو پورا پورا ادا کرنا اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کرنا۔

ہمارے ہاں دستور ہے کہ ہر معاملے میں حکمرانوں کو برابھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے، مگر قرآن مجید کے اس معیار کو سامنے رکھیں تو ہم میں سے کون ہے اور کتنے ہیں جو عدل کے تقاضے کماحقہ نبھانے کے عادی ہیں۔ ہمارے ہاں جو بولتے ہیں وہ عدل نہیں کرتے، جو لکھتے ہیں وہ عدل نہیں کرتے۔ صحافی، تاجر، سرکاری ملازم، مزدور، استاد، علماغرض تمام طبقہ ہائے زندگی، عدل کے معیار کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے کے عادی نہیں۔ ہم عدل صرف تب کرتے ہیں جب دوسروں سے لینا ہو، دیتے وقت عدل کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ اپنے لیے ہرشخص کے پاس ایک عذر ہے۔

لیکن ہمیں ہر صورت پر اپنے ہمہ گیر اخلاقی زوال سے نکلنا ہو گا۔ ورنہ جہاز کی تباہی جلد ہی قوم کی تباہی میں بدل جائے گی۔ اس زوال سے نکلنے کا راستہ ایک ہی ہے ۔ دوسروں کو چھوڑ دیں اور آج سے اپنے آپ کو خدا کے معیار پر تولنا شروع کر دیں۔ انشاء اللہ یہ زوال رک جائے گا۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت جنوری 2017
’’انذار جنوری 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Jan 05, 2017
1627 View